پیر، 8 مارچ، 2010

عادتاں

اردو کی مشهور بلاگر ساتھی جناب عنیقه ناز صاحبه جو که کالم نگار بھی هیں
انہوں نے میری ایک بوسٹ میں تبصرے میں یه پوچھا ہے
که
میں ذاتی طور پہ اس چیز پہ یقین نہیں رکھتی کہ انسانی خواص اس چیز سے تعلق نہیں رکھتے کہ کوئی انسان کس خاندان میں پیدا ہوتا ہے۔ مخصوص جغرافیائی حالات میں رہنے کی وجہ سے لوگوں میں مزاجاً کچھ ہم آہنگیاں ہو سکتی ہیں۔ لیکن یہ کہنا کہ کوئ شخص بازار میں پیدا ہوا ہے، کسی پیشہ کرنے والی عورت کا بچہ ہے، یا کسی خبیث شخص کا تخم ہے اس سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ اصیل گھرانوں میں بھی رذیل عادتوں والے اشخاص ہوتے ہیں۔
لیکن مجھے یہ جاننے سے بڑی دلچسپی ہے کہ انسان ان خواص کو کیوں اختیار کرتے ہیں۔ اور کچھ لوگ کیوں بہترین اوصاف اختیار کرنا چاہتے ہیں۔
مجھے انکے جواب نہیں معلوم۔
لیکن جی مزے کی بات ہے که میں بھی معاملے میں کوئی پکی رائے نهیں رکھتا هوں
لیکن ایسا هوتا ضرور هے که کچھ لوگوں کی عادتیں اچھی اور کچھ کی بری هوتی هیں
پنجابی کا محاورھ ہے که گھر گھرانے هوندے نے
پنڈ گھرانے نهیں هوندے
یعنی که عادتیں اچھی یا بری گھروں کی تو هو سکاته هیں شہروں یا گاؤں کی نهیں
ایک نظریه جو که قران کو پڑھتے هوئے میں نے نکالا هے اس کے مطابق
شیطان لوگوں کو مفلسی کے خوف میں مبتلاکرتا ہے
جس سے لوگ کمائی کے لیے شیطانی کاموں پر اتر اتے هیں
چوری ملاوٹ جھوٹ یا پھی ایک لفظ میں بد معاشی پر اتر اتے هیں
یه علیحدھ بات ہو که لفظ بدمعاش کا بامحاروھ معنی اب کچھ اور هیں
تو جی جن لوگوں کے پاس عقل سلیم هوتی هے
ان کو رزق کے معاملے کی سمجھ لگ جاتی هے اس لیے وھ بد معاشی کی بجائے بد معاملگی کی بجائے
سدھ معاشی اور سدھ معاملگی سے کام لیتے هیں
اس لیے ان کی عادتیں لوگان کو اچھی لگتی هیں اور
شیطان کے ڈالے وسوسے میں آچکے لوگ
شارب کٹ کے لیے جو جو کام کرتے هیں اس کی تفصیل تو سب کو هی معلوم هے
یاد رهے که میں کوئی مذھبی بندھ نهیں هوں یه میری سوچ هے

7 تبصرے:

جعفر کہا...

خاور صاحب، آپ کا نظریہ قابل غور ہے

عنیقہ ناز کہا...

مشہور اور میں،
:)
خیر، آپکا شکریہ کہ آپ نے اسکا جواب قرآن سے نکالا۔ دل کو یہ بات لگتی ہے۔ لیکن عقل سلیم کسے ملتی ہے، کوشش سے یا خدا کی دین ہے۔

عنیقہ ناز کہا...

یہ تصحیح میں نے پہلے بھی کی تھی کہ اس جملے میں دو نہیں ، نہیں ہیں۔ میں نے یہ کہنا چاہا کہ میں اس چیز پہ یقین نہیں رکھتی کہ اسنسانی خواص اس چیز سے تعلق رکھتے ہیں کہ انسان کس خاندان میں پیدا ہوا ہے۔
دو نہیں ایک مثبت کے برابر ہوتے ہیں۔
ایک اور تصحیح، میں کالم نگار نہیں، کہانی کار ہوں۔ مجھے کہانیاں بنانے میں مزہ آتا ہے۔

Unknown کہا...

اقتباس:
لیکن ایسا هوتا ضرور هے که کچھ لوگوں کی عادتیں اچھی اور کچھ کی بری هوتی هیں
خاور بھائی!بندہ بھی اس سلسلے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہے گر قبول ہو تو ڈاون لوڈ کیجئے ورنہ ڈیلیٹ مار دیجئے
تمھید:انسان میں اللہ نے دو متضاد قوتیں رکھی ہیں ایک قوت ملکیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرشتہ بننے کی صفت،آدمی فرشتہ بننا چاہے تو رشک ملائکہ تک بن سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ایک قوت بہیمیت۔۔۔۔۔ جانور بننے کی صفت،آدمی جانور بننا چاہے تو اس کو بھی شرمسار کرسکتا ہے۔۔ پھر ان دونوں قوتوں میں سے ہر ایک کو بعض چیزوں میں مزاآتا ہے اور بعض چیزوں سے کلفت ہوتی ہے چنانچہ جب کوئی قوت ایسی چیز کا ادراک کرتی ہے جو اس کے مناسب حال ہوتی ہےتو اس کو لطف آتا ہے اور جب ایسی چیز کا ادراک کرتی ہے جو اس کے ناموافق ہو تو اس کو رنج پہنچتا ہے مثلا ملکیت کو عبادت میں مزا آتا ہے اور فواحش سے تکلیف ہوتی ہے اور بہیمیت کا معاملہ اس کے برعکس ہے
آمدن بر سر مطلب:ان دونوں قوتوں میں ہمیشہ کشمکش رہتی ہے ملکیت انسان کو بلندی کی طرف کھینچتی ہے اور بہیمیت پستی کی طرف،اور اللہ کی عنایات انسان پر بہر دو صورت مبذول رہتی ہیں اگر انسان بہیمی حالت کا ارتکاب کرتا ہے تو اس میں تعاون کیا جاتا ہے اور اس کیلئے مناسب سامان مہیا کیا جاتا ہے جس سے وہ کام آسان ہوجاتا ہے اسی طرح اگر انسان ملکی حالت کا اکتساب کرتا ہے تو یہاں بھی تعاون کیا جاتا ہےاور اس کیلئے مناسب سامان مہیا کیا جاتا ہے
مذکورہ تفصیل ذہن میں رکھیں پھر ان آیات پر توجہ کیجئے جن کیلئے اتنی دیر تک میں نے دماغ سوزی کی ۔۔۔۔۔ جس نے راہ خدا میں خرچ کیا اور وہ اللہ سے ڈرا اور کلمہ حسنی کی تصدیق کی تو ہم یہ آسان چیز اس کیلئے آسان کردیتے ہیں،اور جسنے بخل کیا اور بے پرواہ بنا اور کلمہ حسنی کو جھٹلایا تو ہم یہ سخت چیز (بھی) اس کیلئے آسان کردیتے ہیں۔سورہ۔92۔آیت۔5۔10
خاور بھائی میں نے مختصر کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے پھر بھی کوفت ہوئی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں

Abdullah کہا...

آسان الفاظ میں شائد یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہر انسان اپنے اندر اچھائی اور برائی کو جانچنے کا پیمانہ ساتھ لے کر اتا ہے یہی وجہ ہے کہ اچھا کام اچھی بات ہمارے دل کو خوشی دیتی ہے اور برا کام اور بری بات تکلیف یا اداسی،
ہوتا کچھ یوں ہے کہ شروع شروع میں تو یہ کیفیت طاری ہوتی ہے مگر ہم اپنے ماحول یا غلط تربیت کی وجہ سے اسے خود پر حاوی نہیں ہونے دیتے اور یوں رفتہ رفتہ یہ بے حسی کی شکل اختیار کرتی جاتی ہے اور آخر کار یہ بے حسی مستقل ہو جاتی ہے، یا ہم اس عقل کو جو ہمیں صحیح اور غلط کی پہچان کے لیئے عطا کی گئی ہے کا غلط استعمال کر کے اپنے گناہوں کا جواز تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب انسان انسانیت چھوڑ کر شیطانیت میں داخل ہو جاتا ہے کیونکہ شیطان نے بھی بالکل یہی کیا تھا کہ اپنی نافرمانی پر شرمندہ ہونے کے بجائے اس کا جواز ڈھونڈا،سو ماحول اور تربیت انسان پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں!
یہ میری ادنا سی رائے ہے اور آپ لوگ اگر اس میں کوئی بہتری لاسکیں تو مجھے خوشی ہوگی!

Abdullah کہا...
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
Abdullah کہا...

یہاں یہ سوال بھی اٹھ سکتا ہے کہ شیطان کو کہاں سے ماحول یا تربیت ملی تو اس کا جواب میری ناقص عقل یہ دیتی ہے کہ اسے جو درجہ عطا ہوا تھا اس نے اسے غرور میں مبتلا کردیا،اور یوں وہ اپنے تمام علم کے باوجود راندہ درگاہ ٹھرا،
یہی وجہ ہے غرور یا تکبر کرنے والے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ایسے شخص کی طرف اللہ پاک نظر اٹھا کربھی نہیں دیکھے گا اور اس کے عبرتناک انجام کی بشارت دی گئی،کیونکہ غرور صرف اور صرف اللہ کی ذات کو زیبا ہے!
یعنی ماحول اور تربیت انسان میں موجود خود پسندی کو بھی کنٹرول کر سکتی ہے جو اس میں غرور اور تکبر جیسی بری صفات پیدا کرتی ہے!

Popular Posts