دھونکل
دھونکل نام کا ایک قصبه ہے جو جی ٹی روڈ پر گوجرانواله اور وزیر آباد کے درمیان واقع ہے ـ
یہاں ایک قدیم مندر ہے جس میں ایک ٹل (گھنٹه) لگا هوا ہے ـ
جس کو چومنے کے لیے لوگ آتے هیں که اس سے مرادیں پوری هوتی ہیں
اپنے جرنل ضیاع صاحب بھی گئے تھے اس قصبے میں !ـ
امیرالمومنین بننے کے چکر میں ساری قوم کو خوار کر جانے والے ان صاحب کو پته نہیں کیا کام تھا یہاں ـ
کچھ دهائیاں پہلے اس گاؤں گے لڑکوں نے کیا کیا که
اس ٹل کی زنجیر کی کچھ کڑیاں باندھ کر اس کو اونچا کر دیا
اور خود کمر میں رنگ برنکے پٹکے(ڈوپٹے) باندھ کر متوّلی بن کر کھڑے هو گیے
اور جو بھی خاتون ٹل چومنے اتی تھی اس کو پیچھے سے جپھی ڈال کر اٹھاتے تھے اور ٹل چومنے میں مدد کرتے تھے
کسی پنجابی شاعر کی بیوی کو بھی ٹل چومنے کا شوق چڑھا اور اس نے اصرار کر کے اپنے خاوند کو ساتھ لیا اور دھونکل پہنچ گئے
شعر نے جب اپنی انکھوں سے اپنی بیوی کو جپھی ڈلتے دیکھی تو اس نے ایک قصه نظم لکھی تھی جو ان دنوں کافی چلی تھی
اس کےجو شعر مجھے یاد رھ گئے هیں وه کچھ اس طرح هیں
واھ واھ ترونکل جائے دا
لک وچوں جپھا پائی دا
تھلیوں گوڈا ڈائی دا
تے اتوں ٹل چموائی دا
واھ واھ ترونکل جائی دا
کہتے هیں اس نظم کے انے کے بعد لڑکوں نے ٹل کی زنجیر کی کڑیاں کھول دی تەیں اور
آئیں بائیں هو گئے تھے ـ
اس گاؤں کی ایک اور بات مشہور ہے جو که مجھے
آپنا پاکستان والے افضل صاحب کی
یه پوسٹ پڑھ کر یاد آئی
کہتے هیں اس گاؤں کے ایک ترکھان کو ایک دن کوئی مجذوب ملا جس کی اس ترکھان نے بڑی خدمت کی ـ
کچھ دن بعد جب مجذوب جانے لگا تو اس نے ترکھان سے پوچھا که تمہاری کوئی خواہش ہے تو بتاؤ
تمہاری کوئی سی بھی ایک خواهش پوری هو گی
ترکھان نے خوشی اور بے یقینی سے پوچھا که واقعی ؟
مجذوب نے کہا هاں بتاؤ کیا خواهش ہے تمہاری ؟
تو ترکھان نے کہا که دعا کریں جی که اس علاقے کی ساری ٹاہلیاں (شیشم) کالی هو جائیں ـ
مجذوب نے دعا کی اور قبول هوئی !ـ
کہتے هں که دھونکل یا ترونکل کی سرزمین کی کسی بھی ٹاہلی کو توڑ کر دیکھيں چاهے ایک مہینے هی کی کیوں ناں هو اندر سے کالی هو گي ـ
کالی ٹاهلی کی کیا کوالٹی ہے ؟
که اس سے بنا هوا فرنچر مضبوط اور خوبصورت هوتا ہے اور اس کو گھن نہیں لگتا ـ
کچھ لوگ اس ترکھان کو سادھ دل کهتے هیں اور کچھ چھوٹی سوچ کا مالک ـ
که اس نے دولت مند بننے کا موقع ضائع کر دیا ـ
لیکن اہل دل اور اہل نظر اس کو اجتماعی فائدے کی سوچ کہتے هیں ـ
اک عظیم سوچ که ایک عظیم دل میں هی اُٹھ سکتی ہے ـ
مگر همارے معاشرے میں ترکھانوں کو کمی اور کمینه کہا جاتا ہے
اس لیے ہمارے حکمران کبھی بھی کو کام ایسا نہیں کریں گے که اس ترکھان جیسی سوچ کے مالک کہلوا کر کمی کمین نه بن جائیں ـ
آپني ذات سے اوپر اٹھ کر سوچتے هوئے ان کی سوچ کے پر جل جاتے هیں ـ