ہفتہ، 2 جولائی، 2016

مانگت یا مولوی

ارویا مقبول جان اور دیگر علماء میڈیا اج کل مولوی کی عزت بچانے کے لئے جھوٹ بول بول کر ہلکان ہیں ،۔
انگریز کو الزام دیا جارہا ۔ سازشی تھیوری کو سان پر چڑہایا جا رہا ہے ۔
اپ خود بھی سوچیں
کہ
کیا اپ نے کبھی احساس کیا ہے کہ
جنرل ضیاء صاحب والے اسلام کے بعد  مسجدوں کی بہتات ہو چکی ہے ،۔
ابادی ؟ سولہ کروڑ کی ابادی تھی  سن انیس پچاسی میں جو کہ اب بڑھ کر بیس کروڑ ہو چکی ہے ،۔
یعنی کہ کوئی 60% اضافہ ہوا ہے ، ابادی میں ،۔
اس طرح ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسجدوں کی رونق بڑھتی یا کہ چلو جس گاؤں میں دو مساجد تھیں وہاں تین ہو جاتیں ، چلو چار ہو جاتیں
لیکن ؟ یہاں ہوا یہ کہ
مساجد تین سو فیصد بڑھ چکی ہیں ،۔
ایسا کیون ہوا ہے
ایسا اس لئے ہوا ہے کہ
جنرل ضیاء کے اسلامی نفاذ کے دوران مودودی صاحب کی تعلیمات کی روشنی میں پاک فوج نے جو نظام روس کو زچ کرنے کے لئے بنایاتھا
اس میں مولوی کی کمائی کے لئے لوگوں کے سخاوت کے جذبات ابھار کر ، مولوی کو چندہ اکٹھا کرنے کی تکنیک سیکھائی گئی ، ۔
چندہ مانگنے کی یہ تکنیک جماعت اسلامی کے پوروگراموں سے گراس روٹ لیول تک پہنچ چکی ہے
مدرسوں میں دھڑا ڈھڑ مولوی اور مجاھد تیار کئے گئے ۔
مجاھد لوگ شہید کے مرتبے کو پہنچے
مجاھد تیار کرنے کی فیکٹریاں مساجد بنانے کے لئے چندے کے نظام کو مرتب کیا گیا
ڈھڑا ڈھڑ مولوی تیار کرتے گئے ؟
طلب اور رسد کے افاقی قانوں کے تحت ، مولوی کی رسد زیادہ ہوتی چلی گئی اور روس کے اندہام کے بعد طلب بھی ختم ہو گئی ۔
کچھ طالبان کے نام پر افغانستان کو پانچواں صوبہ بنانے کے پروجیکٹ میں ،
مولوی کی طلب برقرار رہی ۔
لیکن اخر کب تک ۔
اج مولوی بنانے کی فیکٹریاں بےحساب ہیں ۔
مولوی بھی بہتات میں ہیں ،۔
لیکن طلب نہیں رہی ،۔
جنازے ، پڑھانے کے لئے مولوی زیادہ ہیں مردے کم ہیں ،۔ بم دھماکے ، ڈکیٹی کے قتل اور نامعلوم قاتلوں کے کارگردگی کے باوجود
مولوی کی رسد ، مولوی کی طلب سے کہیں زیادہ ہے ۔
 بھیک کی کمائی سے تیار کردہ فیکٹری میں
بھیک کی کمائی کھا کر  بھیک مانگنے کا فن سیکھ کر جو مولوی تیار ہو گا
اس کی معاشرے میں حثیت کیا ہو گی ؟
یاد رکھیں
خالق کائینات نے چیزوں میں تاثیر رکھی ہے ،۔
اگر ایک بندہ پانی میں ہاتھ ڈالے کا تو اس کاہاتھ ضرور بھیگ جائے گا ۔
جو بندہ جھوٹ بولے گا اس کا اعتبار ختم ہو جائے گا ،
جو سود کھائے گا  ،اس کے جین سے محنت کی عادت ختم ہو جائے گی جس کی وجہ سے اس کی تیسری نسل مفلسی کا شکار ہو گی ۔
اسی طرح
بھیک (چندہ) مانگنے کی بھی یہ تاثیر ہے کہ  بندہ معاشرے میں ذلیل کر دیا جاتا ہے
اور یہ ہو رہا ہے مولوی کے ساتھ ،
مولوی کنگرے ، بھانڈ اور مانگت کے لیول پر اتر چکا ہے
لیکن عزت مولوی والی چاہتا ہے ۔

جہاں تک بات ہے مولوی کی تو ، جنرل ضیاء صاحب کے اسلام سے پہلے گاؤں قصبوں میں مولوی کی ایک بڑی حثیت تھی ، ہر مسجد کے ساتھ ایک رقبہ ہوتا تھا جس کے دانے مولوی صاحب کو ملتے تھے ۔
ہمارے گاؤں سے سیکرٹری وزارت خزانہ جناب ممتاز خان صاحب ہوئے ہیں ۔
جو کہ ملوانہ فیملی سے تھے ۔
ان کا خاندان گاؤں چھوڑ کر جا چکا ہے ، ان کے متروک مکان اج بھی گاؤں کے بہترین مکانات ہیں ،۔
مختصر یہ کہ اگر کوئی کہے کہ مولوی کو حقیر جاننے کا رویہ انگریز کا پیدا کیا ہوا ہے تو یہ ایک غلط بات ہے ۔

اس کے بعد جو میں نے دیکھا ہے کہ لفظ کمی ،کامے کی مختصر ہے ۔
اور میں نے یہ بھی دیکھاہے کہ کسی کو اس کے پیشے کی وجہ سے حقیر جاننے کا رویہ ہمارے علاقے میں بہت ہی کم ہوتا ہے ،۔
ہر بندے کی اقتصادی حالت ضرور اس کی عزت اور بے عزتی کا باعث ہوتی ہے ۔
اگر ایک کمہار ، یا لوہار  دانش مندی سے پیسہ کما لیتا ہے تو اس کو ئی بھی اوؤے کر کے نہیں پکارتا ،۔
اس کے برعکس اب جب کہ زمینیں گھٹ کر مرلوں تک پہنچ چکی ہے تو
جاٹوں کے بیٹے بھی ، ترکھان لوہار کا کام کر رہے ہیں ،۔
پیشہ بدلنے سے میں نے تو کہیں کسی کی عزت میں کمی ہوتی نہیں دیکھی ہے ۔
پیشہ بدلنے سے !!،۔
بھیک مانگنا کمائی ضرور ہے لیکن پیشہ نہیں ہے ، اگر پیشہ ہونے کا کہہ بھی لیں تو ؟
یہ ایک ذلیل ترین پیشہ ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts