اتوار، 24 اپریل، 2016

پاکستان میں احتساب


پاک فوج کے اندر کے احتساب کو  بھولے لوگ  جنرل راحیل شریف صاحب کی  عظمتوں کی داستان بنا رہے ہیں ،۔
کچھ تجزیہ نگار  کو بوٹوں کی چاپ سنائی دے رہی ہے ۔
شیر افگن ناگرہ کہہ رہا تھا
اب ان گنجوں کی خیر نہیں ہے ،۔ فوج نے اپنے اندر کے کچھ لوگوں کو ایسے کیا ہے جیسے گونگلوں سے مٹی جھاڑنا ، اس کے بعد   گنجوں کی باری ہے ۔ْ
لیکن فوج کے اندر ہونے والے اس معاملے کا علم کتنے لوگوں کو ہے ؟؟
یا کہ پاکستان کا میڈیا  اس بات کا اہل بھی ہے کہ کسی چیز کی تحقیق کر کے  اصلی معاملے کو قارئین کے سامنے لا سکے؟؟
 پاک افغان سرحد پر  جہاں سے جاپان سے جانے والے  کنٹینر  افغانسان ایکسپورٹ کے نام پر  کھل پر پاکستان میں اسمگل ہو جاتے ہیں  ۔
وہاں بڑی بڑی دل کو بھانے والی چیزیں بھی نکل آتی ہیں ۔
ایک دن وہاں  ایک سکائی لائین جی ٹی آر نکل آئی  ۔ جس پر کسی “ بڑے “ کا دل آ گیا  ،
اس دل کے آنے کی بھنک مل جانے والے کسٹم افیسر نے  وہ جی ٹی آر بحق سرکار ضبط کر کے اس “ بڑے “ کو دے دی ۔
اس بڑے فرشتے کی مجبوری کہ نوکری میں ایسی قیمتی گاڑی  رکھ نہیں سکتا تھا
اس لئے اس نے یہ گاڑی اپنے بیٹے کو دے دی ۔
بڑے باپ کا عظیم بیٹا  گاڑی کی سپیڈ سے مطمعن نہیں ہوا ۔
جی ٹی آر میں  کچھ سینسر ایسے لگے ہوتے ہیں کہ اس کی سپیڈ کو کنٹرول رکھ سکیں ۔
یہ سنسر مخصوص جگہوں پر جا کر کھل جاتے ہیں ،۔
جیسا کہ ریسنگ کورس ،  یہ سنسر کھلنے کے بعد جی ٹی آر کی سپیڈ دیکھنے کے قابل ہوتی ہے ۔
بڑے باپ کے عظیم بیٹے کو اس بات کا غالباً علم نہیں تھا
اس نے فوج کے اجنئیرز سے مدد مانگی ، اب نامعلوم ان انجنئرز نے کیا کیا
اور کیا ہوا کہ اس ضبط شدہ گاڑی کے حادثے میں جان سے گزر گئے ۔
جن جو جائیں چلی جائیں اور وہ بھی فوج کے کمشنڈ افسروں کی تو ؟
قانون حرک ت میں آ ہی جاتا ہے ورنہ مرنے والوں کے لواحقین حرکت پذیر کر ہی لیتے ہیں ۔
ان تحقیقات کے دوران  علم ہوا کہ پاک افغان سرحد پر بلوچستان میں اسمگلنگ میں “ کرپشن” ہوئی ہے ۔
جس میں کچھ گونگلو سے مٹی جھاڑنی ہی پڑے گی
اور اس معاملے کی ٹائمنگ ؟ پانامہ لیکس کے زمانے میں فٹ ہو گئی
جس سے لوگوں کو بوٹوں کی چاپ اور شریفوں کا احتساب نظر آنے لگا ْ
بھلیو لوگو !!ْ
کچھ نہیں ہو گا  لسی پی کر سو جاؤ اور اپنے بچوں کا مستقبل  فارن میں تلاش کرو
جیسا کہ سب شریف ، فرشتے ، مومن ،صالحین اور ماہر عمرانیات کر رہے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ایک بڑے ہی محترم  جاپانی بزرگ  کوئی پچتھر سال کی عمر میں کینسر کا مرض لاحق پو گیا ، ڈاکٹروں نے ان کی موت کی پشینگوئی کر دی
کہ اب بس چھ ماھ ہیں ۔
ان کا بیٹا میرا دوست ہے
بہت امیر فیملی ہے ، گھر پر نئے ماڈل کی جی ٹی آر کھڑی ہے ۔
ان بزرگ کو جب علم ہوا کہ اب مر تو جانا ہی ہے تو ؟ ہم سب نے ان کی دل جوئی کی کوششیں کرنی شروع کر دیں تھیں ۔
ان بزرگوں کا جو جو کرنے کو دل چاہتا تھا  وہ وہ کام  ہم نے کئے
ان میں سے ایک کام ان کا یہ بھی تھا کہ
ان کا دل چاہتا تھا کہ
سکائی لائین جی ٹی آر پر سپیڈ مار کر دل بھر کر گاڑی چلانا چاہتے تھے ۔
جو
کہ جاپان کی سڑکوں پر ممکن نہیں تھا
کہ جاپان میں سپیڈ کی قانونی لمٹ  زیادہ دے زیادہ سو کلو میٹر گھنٹا تک ہے ۔
تو  میرے دوست نے ریس کورس کو ایک گھنٹے کے لئے کرایا پر لے لیا تھا۔
پورا ریس کورس ہی کرایا پر لے لیا ،ایک بہت بڑی رقم ادا کی گئی تھی۔
اس وقت مجھے علم ہوا تھا کہ سکائی لائین جی ٹی آر میں ایسا سنسر بھی ہوتا ہے ،۔
وہ بزرگ فوت ہو چکے ہیں ۔

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts