جمعہ، 22 فروری، 2013

ماں بولی کے دن پر ، ماں بولی پنجابی کے نام

ماں ! دنیا میں سب سے سچا رشتہ ہے. ہمارا وجود ماں کی مامتا کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔
ماں کے منہ سے سنے ہوئے الفاظ اور بولی کو مادری زبان کہتے ہیں
کوئی مذاق میں کہے کہ پھر گونگی معذور ماں کے بچے کس زبان کو ماں بولی کہیں گے؟
تو میں کہوں گا۔
ماں ،دھرتی کی طرح زمین کی طرح
یا کہ
دھرتی، ماں ہی کی طرح ہوتی ہے ۔
جس کی گود میں  قلعوں جیسا تحفظ ! جس کے زیر سایہ گھنے درختوں کی طرح کی چھاؤں ہوتی  ہے۔

  اور جس کی محبت کے جذبوں کے دریا سدا بہتے  ہی رہتے ہیں۔
اسی لئے دھرتی کو بھی ماں کہتے ہیں اور دھرتی کی بولی کو مادری زبان کہتے ہیں۔
زبان اور زمین (دھرتی) کے رشتے کو سمجھنے والے ،ہمیشہ مادری زبان کا ہی پرچار کرتے ہیں ۔
کیونکہ ماں بولی صرف ماں کی بولی نہیں دھرتی ماں کی بولی بھی ہوتی ہے ۔
اور ہر علاقے کی زمیں اپنی اپنی خصوصیات رکھتی ہے
جن خاصیتوں کی جھلک اس دھرتی کے باسیوں کی عادات اور خصائیل میں ملتی ہے۔
میدانوں ، پہاڑوں ، صحراؤں کے باسیوں کے مزاج ان کی زمین کی موسموں کے مزاج سے جڑے ہوتے ہیں ۔
جو کہ اس دھرتی کے سپوتوں کی کوالٹی میں کھل کر نظراتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ دانشور ،سیانے  اور عالم لوگ اپنی اپنی ماں بولی میں تعلیم اور پرچار کو ترجیع دیتے ہیں ۔
اور اگر یہ تعلیم اپنی ماں بولی میں میسّر نہ ہو تو ، اس سانحے کا نوحہ بھی روتے ہیں ۔
کہ 
کوئی بھی زبان گھٹیا یا بڑھیا یا اعلی یا ادنٰی یا کمتر اور بر تر نہیں ہوتی ۔
،
بلکہ ہر ماں بولی اپنی ثقافتی اقدار اور لوک ورثہ کی حامل ہوتی ہیں
اس لئے اگر کسی علاقے کے لوگوں سے ان کی زبان چھین لی جائے تو ایسا ہی ہے کہ ان سے ہزاروں سال کا ورثہ چھین کر ضائع کردیا گیا ہو ۔

کیونکہ ہر زبان لفظوں محاورں اور حکمتوں کا ایک خزانہ ہوتی ہے
جو کہ اسی دھرتی کی تاثیر سے پر اثر ہوتے ہیں ۔
ماں بولی میں سوچنے  اور لکھنے والوں کو ، ذہن کے ٹکسال میں  لفظوں کو  سکوّں کی طرح گھڑنا نہیں پڑتا
بلکہ اظہار ایک چشمے کی طرح دل میں ابلتا ہے اور ابشار کی طرح بہتا ہوا نشیبی ذہنوں کی ابیاری کرتا ہوا !۔
ان میں علم کی سیرابی لاتا ہے اور ان ذہنوں میں موجود علم کے بیجوں کی ابیاری کرکے ان کو کونپلوں بودوں اور درختوں میں بدلتا ہوا چلتا جاتا ہے ۔
اس فصل سے جو اناج اتا ہے ، وہ ہی قوموں کی معراج ہوتا ہے ۔
روایات و اقدار کی بندیں بنتی ہیں ۔
ماں بولی کے الفاظ شہد کا اثر لئیے ہوتے ہیں ، اور ماں بولی کے محاوروں میں وہ اپنایت ہوتی ہے کہ سننے والے کی روح کی گہرایوں میں اتر کر روح کی کثافتوں کو نکال باہر کرتی ہے ۔
میں جو اس بات کو اردو میں لکھ رہا ہوں تو مھے احساس ہے کہ مجھے یہ باتیں پنجابی میں لکھنی چاہئے تھیں ۔
کہ پنجابی میری ماں بولی ہے۔ 
لیکن میری بولی میں لکھت پڑھت مجھ سے چھین لی گئی ہے۔
 
کہ مجھے قدرت کے چشمے سے نکلتے الفاظ کو ذہن کے ٹکسال میں حروف میں ڈھالنے کی مشقت کرنی پڑتی ہے ۔
اس کاریگری میں الفاظ کا اثر کچھ  کم ہو جاتا ہے اور کچھ
اس کو پڑھنے والے کو بھی کاریگری کرنی ہوتی ہے کہ اس کو اردو میں پڑھ کر ، اپنی ماں بولی میں ڈھالنا ہوتا ہے ۔


Popular Posts