بینڈ باجے والے
جاپانی دوست شیگے کے ساتھ پاکستان اپنے گاؤں گیا ہوا تھا ، اپنے پرانے کلاس فیلو برگیڈئیر بشیر نواز سے ملنے کینٹ جانا تھا ، اپنے پاس تو گاڑی نہیں تھی شیگے کی ساتھ ہونے ک وجہ سے ایس پی مختار چیمہ صاحب نے آفر کی تھی کہ کوئی پلس کا بندہ بھیج دیں گے ،۔
چیمہ صاحب بھی میرے ہائی سکول کے کلاس فیلو تھے ،۔
میں اور شیگے گھر سے نکلے ، کہ پلی کے پاس بغل میں کلارنٹ باجا دبائے بڑی سجیلی وردی پہنے جلدی جلدی چلتا ہوا اپنا بچپن کا دوست بھولا باجے والا مل گیا جس کی ساری ٹولی سرخ سفید وریوں میں کندھوں پر جھالریں لگائے سجے بنے کھڑے تھے ،۔
بھولے کو جیسی تیسی انگریززی آتی تھی اس انگریزی میں شیگے کو بتانے لگا ، بڑی کمائی ہے ، پے یعنی سائی کی رقم تو بس ایویں نام کی ہوتی ہے ، “ اتوں “ کی کمائی بہت ہے ، ۔
میں نے شیگے کو اپنا شادیوں کے کلچر اس میں بینڈ کا کردار اور ویلوں کی طرح ملنے والی “ اتوں “ کی رقم کے متعلق تفصیل سے سمجھا دیا ،۔
چیمے نے تین فیتی والا حوالدار بھیجا تھا ڈالے پر ، وردی پوش حوالدار صاحب کو شیگے سے باتوں کا شوق تھا بڑی باتیں کرتے رہے شیگے کو بتاتے رہے کہ پے یعنی تنخواھ تو بس ایویں سی ہے “ اتوں “ کی کمائی بہت ہے ،۔
قصہ مختصر کہ کینٹ میں چیمہ صاحب بھی وردی میں ہی تھے ، شیگے جاپانی پر رعب ڈالتے رہے کہ ایویں جاپان جا کر کمائی وغیرں سے زیادہ یہاں پاکستان میں ہی رہنا چاہئے کہ پے بیشک کم ہے لیکن “اتوں “ کی کمائی بہت ہے ،۔
اس بات کو گزرے
پچیس سال ہونے کو ہیں ، شیگے اج تک اسی یقین میں مبتلا ہے کہ پاکستان میں سارے وردی والے بینڈ واجے والے ہی ہوتے ہیں م،۔
جن کی اوپر کی کمائی بہت ہوتی ہے ۔ْ
اس کا وہم کسی حد تک ٹھیک بھی ہے ،
وردی والوں نے ساری قوم کی بینڈ بجا کے رکھی ہوئی ہے ، الٹی لٹائی ساری قوم کی تشریف کو ڈھولکی کی طرح بجا رہے ہیں ،۔
ہیں ناں بینڈ باجے والے ؟
ساری قوم کی بینڈ بج رہی ہے ،۔
خاور کھوکر