جمعرات، 24 نومبر، 2016

کوّی اور کلپنا

میاں محمد بخش صاحب کی پنجابی شاعری سے مجھے بچپن سے یہ کچھ شعر یاد ہیں ،۔
زبان ، آسان پنجابی ہے ، مجھے امید ہے کہ اپ کو بغیر ترجمعہ لکھے سمجھ لگے گی
ورنہ اس کے بعد کی میری کلپنا سے تو مجھ لگ ہی جائے گی

کرماں باجھ پیاریا گل کوئی ناں

پاویں سر تے لالاں دی پنڈ ہوئے

جائے بازار تے نکل سب کھوٹے

پاویں مگر دلالاں دی ڈنڈ ہوئے ۔

بیجے کنک تے اگ باغاٹ پیندا

پاویں خاص نیائی دی ونڈ ہوئے

پراوں باجھ پیاریا جیون کوئی ناں

پاویں مگر قبیلے دی ترنڈ ہوئے ،۔

نومبر کا مہینہ چل رہا ہے ۔
امریکہ میں نئے صدر اور پاکستان میں نئے سپہ سالار کی  تبدیلی کا وقت ہے ۔
پاکستان میں ایک آفواھ اڑی ہوئی ہے کہ
آنے والا چیف آف آرمی سٹاف  کوئی قادیانی ہے ۔
عام عوام کا ایمان بھرسٹ ہونے کو ہے ،۔
اسلام خطرے میں پڑا نظر آتا ہے
اللہ خیر کرئے !!،۔
پاکستان میں ہم نے سرمے والی سرکار جناب جرنل زیاں صاحب کی قیادت میں اسلام کاشت کیا تھا ،۔
جرنل صاحب والا اسلام بھٹو صاحب نے قادیانیوں والا نقلی اسلام علیحدہ کر کے خالص اسلام بنا
کر دے دیا تھا،۔
یہ ختم نبوت والا اسلام ، مودودی صاحب کی تفہیم القران کی کھاد سے پاکستان میں بو دیا گیا تھا،۔
لیکن ہوا یہ کہ

بیجے کنک تے اگ باغاٹ پیندا

پاویں خاص نیائی دی ونڈ ہوئے

بوئی تو گندم تھی لیکن اس میں مسالک ، فرقوں اور نظریات کا باغاٹ اس کثرت سے اگا کہ
خدا کی پناھ
اس پر جو پھل آیا اس سے لشکر ، جیش ، جتھے اگ  کر سرخ انقلاب کی راھ میں پہاڑ بن کر کھڑے ہو گئے ،۔
سفید ریچھ ، زخموں سے چور ، دریائے آمور کے اس پار جا کر زخموں کو چاٹنے لگا تو؟
تفہیم القران کی کھاد سے اگا ہوا اسلام !۔
خدا کی آنکھ بن کر معاشرے کی برائیوں کو چن چن کر قتل کرنے لگا،۔
اپنے گھر میں قتل ، پڑوسیوں کے گھر میں قتل ، کافر کافر شیعہ کافر ، کافر کافر سنی کافر ، کافر کافر یہ بھی کافر وہ بھی کافر
قادیانی تو پکے کافر !!،۔
اب جو بھی ہو سو ہو
اگر قادیانی چیف آ جاتا ہے تو ؟
اے ایمان والو یقین رکھو ، اس سے اسلام کو ئی خطرہ نہیں ہے ،۔
اسلام کوئی غریب کو جورو نہیں ہے جو چوراہے میں لٹ جائے گی ،۔
قادیانی چیف کے انے سے خطرہ ہے تو ان جڑی بوٹیوں کو ، جن کی جڑہیں  جی ایچ کیو کے گملوں میں لگی ہیں ۔
ہم پینڈو دیہاتیوں کو علم ہے کہ جب جھاڑ جھنگار پڑھ جائے تو درختوں کو کھیتوں کو کھالوں اور نالیوں کو اس جھاڑ جھنگاڑ سے صاف کرنا ہی پڑتا ہے ،۔
اللہ کرئے کہ کوئی ایسا آئے جو اس جھاڑ جھنگار کو صاف کر کے دے !،۔
وہ چاہے
قادیانی ہو کہ کافر ،!،۔
بس بندہ ہونا پاکستانی چاہئے،۔

منگل، 8 نومبر، 2016

سموگ ، وجوہات اور علاج

لاہور میں  سموگ نامی جو دھند پھیلی ہوئی ہے ؟
یہ کیا ہے ؟
یہ گاڑیوں کے انجن سے نکلنے والا دھواں اور گیسیں ہیں ،۔ فیکٹریوں ، ملوں اور بھٹوں کی چمنیوں سے نکلنے والی گیسیں ہیں ، جو زہر سے بھری ہوئی ہیں ،  ان سے طرح طرح کی بیماریاں انسانی جسموں میں سرایت کر جائیں گی ،۔
اور یہ ماحول کوئی ایک دن میں نہیں بنا ہے ،۔
یہ صنعتی  فضلہ ہے ۔
یہ زہر ہیں جو فضا میں رچ چکے ہیں ،۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  وہ ممالک جو ہم سے زیادہ ملیں ، گاڑیاں اور چمنیوں والی ملیں رکھتے ہیں ان میں یہ مسئلہ کیوں نہیں ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ
دھویں کے علاج کے لئے انیس اٹھتر میں امریکہ میں ایک قانون بنا تھا کہ ہر گاڑی کے سائلنسر میں ایک ڈبہ نما پرزہ لگایا جائے گا ،۔
اس سال کے بعد بننے والی ہر گاڑی میں یہ ڈبہ لگا ہوا ہے
جو پہلے پہل المونیم کی گولیوں سے بھرا ہوا یک ڈبہ ہوا کرتا تھا
اس کے بعد سرامک کا سوراخ دار برتن بنا  جو کہ اب بھی چل رہا ہے اور کچھ کمپنیاں میٹل یعنی لوہے کی جالی سے بھی بنا رہی ہیں ،۔
گاڑیوں کے سائلنسر میں لگا ہوئے اس ڈبے کا کیا فنکشن ہے ؟
پاکستان میں کوئی ایک بھی مکینک نہیں جانتاہو گا ۔
پاکستان میں اس تکینک کا کسی کو علم ہی نہیں ،۔
بلکہ مکینک لوگ اس ڈبے کو نکال کر باہر پھینک دیتے ہیں ،۔ حالانکہ اس ڈبے میں کوئی تین ہزار سے دس ہزار روپے کا سونا نکلتا ہے ،۔
اج میں جاپان اور دیگر مہذب دنیا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ڈبہ ہر کارخانے کی چمنی میں لگا ہوا ہے م،۔۔
دوئیں کے زہر کو صاف کرنے کے اس انتظام کو
انگریزی میں
catalytic converter کہتے ہیں
اور جاپانی میں شوکوبائی ، اردو میں اس کو نام دیا گیا ہے ، آلہ ردعمل یا آگ پریرک،۔
یہ آلہ پلاٹنم ، پلوڈیم اور دوڈیم نامی قیمتی دھاتوں سے فضا میں ہونے والے کیمیائی عمل سے گیسوں کے زہریلے خواص ختم کر دیتا ہے ،۔
پاکستان میں اس تکنیک کی تعلیم کی ضروت ہے
اور اس تکنیک کو اپنانے کی ضروت ہے
ورنہ ہماری آنے والی نسلیں اپاہج اور مفلوج ہوں گی
اور یہ سارا جرم
ہم پر آئے گا
یعنی اس نسل پر جو اج فضا کو گندا کر رہی ہے ،۔
اس زہر بھری فضا سے
کوئی ایک ڈیڑھ کروڑ لوگ سینے کے کنسر سے مریں گے ،۔
دس کروڑ بیماریوں میں مبتلا ہوکر کرب سے گزریں گے
جب بات ارباب اقتدار کے بچوں کی موت تک پہنچے گی ؟
تو
پہلے اس کا الزام سگریٹ پر لگایا جائے گا
بھر کسی سخی داتا ملک سے مدد کی بھیک مانگی جائے گی
شاید کوئی سخی ملک پاک لوگون کو شوکوبائی کی افادیت کی تعلیم دے گا
اور پھر جو کمیشن دے گا اس ملک کی امداد لے کر کارخانے داروں اور بھٹہ مالکان کی " بغل " میں ڈنڈا دے کر پیسے نکلوائے جائیں گے ۔
ٹریفک پولیس کا سائلنسر کے دھوئیں کے نام پر جگا ٹیکس چلے گا ،۔
ہم تم فارن میں بیٹھ کر فلسفے بکھاریں گے
کہ
ہم تو پہلے ہی کہتے تھے ۔

وقت کرتا ہے پروریش برسوں
حادثے یک دم نہیں ہوا کرتے
“””””””””””””””
اردو کے انسائکلوپیڈیا پر اس تکنیک کی کچھ تفصیل
https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A2%D9%84%DB%81_%D8%B1%D8%AF%D8%B9%D9%85%D9%84_%D8%8C_%D8%B4%D9%88%DA%A9%D9%88_%D8%A8%D8%A7%D8%A6%DB%8C

Popular Posts