خلافت کے متعلق
تانیه رحمان صاحب نے ایک پوسٹ لکھی هے جس میں خلافت کے دوبارھ چالو کرنے کی بات ہے
اس پر میرا تبصرھ کچھ اس طرح ہے
کیوں نہیں جی ایک خلیفه هونا چاھیے اور وھ میں هونا چاھتا هوں
سبھی میں یه خلیفه بننا چاھتے هیں
جس کی خدا کی طرح مانی جائے
جس کا ایک حرم هو جس میں هزاروں هی لڑکیاں هوں
چودھ سال کی عمر میں داخل کی جائیں اور سوله سال کی عمر میں ریٹائیر کردی جائیں ، یورپی نسل کی لڑکیاں زیادھ هوں اور ان کے بالوں کو خزاب لگا کرکالا کردیا جائے که دیسی سی گوری لگیں ، حرم کے ملازمین کے تیروں کو کاٹ دیا جائے که کہیں حرم میں هوجود امت کی مقدس بیبیوں کی بغل میں ناں دینے لگیں ـ
یورپی قانون اٹھارھ سال سے کم کی بچی کو استعمال پر پیڈافیل کہے تو اس کو کافر قرار دے دیا جائے اور خود ہر روز حرم ميں گھنڈ کی بوریوں کے منه کھولے جائیں ـ
لگی هوئی بوریاں غلاموں میں بانٹ دی جائیں اور امت کی فکر میں گھل گھل کر موٹا هو جاؤں که اٹھ کر چلنا مشکل هو ، مرغن غذاؤں کے کھانے سے پھوسیاں ماروں که دربار میں بیھنا مشکل هو لیکن شاعر میری پھوسیوں کو عطر سے تشبیه دیں ـ
کافر لوگ جمہوریت کی بدولت خوش حال هو ں اور توحید کے نام پر میں اللّه کا ڈسپیبیوٹر بن کر هو جاؤں اور شخصیت پرستی کی ایک ایسی تاریخ لکھوں که لوگ لوگ میرے حرم کی باتیں لکھا کریں
بس جی اس طرح کی ھزاروں خواہشیں هیں اور امت کے تعاون کی ضرورت ہے
لیکن میں تو جی کمیار هوں اور یہان صرف شخصیت پرستی هی نهیں نسل پرستی بھی هو گی ؟؟
لوک چاند پر چلے گئے هم حرم ميں بھی کسی اور چیز میں جانا چاھتے هیں
کھنڈ کی بوری کا وھ لطیفه بڑا پرانا ہے که کسی کھتری کے گھر میں جوان لڑکی تھی اور اس کا ملازم بھی جوان تھا ، کھتری هر روز اپنی بیوی کو کہتا تھا اؤ کھنڈ کھائیے!!ـ
اور کمرے ميں چلے جاتے تھے
ایک دن اس کی بچی کہنے لگی
باپو اج میں نے بھی کھنڈ کھائی هے
کھتری کا تراھ هی نکل گيا ور اس نے پوچھا کسی کے ساتھ؟؟
اپنے ملازم بگو کے ساتھ !!ـ
کھتری نے ملازم کو پکڑ لیا اور کہنے لگا
اؤے جب گھر میں کھلی بوری موجود ہو تو تم نے اس میں سے کھنڈ کیوں نهیں کھادی اوئے ؟؟
نویاں بوریاں دے منه کھول دتے نی !!ـ