اردو میڈیم کے پڑھے لوگ
اردو میڈیم کے پڑھے ہوئے لوگ
ہمارے گاؤں میں ایک ڈالکٹر صاحب ہیں ڈاکٹر یونس صاحب ۔
ڈاکٹر یونس ایم بی بی ایس،۔
ان ڈاکٹر صاحب کے خاندان میں کئی ڈاکٹر ہیں ،۔
کچھ ڈنگر ڈاکٹر اور کچھ میڈیسن ڈاکٹر اور پٹواری ، مطلب یہ کہ ڈاکٹر صاحب کئی نسلوں سے پڑھی لکھی فیملی سے تعلق رھتے ہیں ،۔
ڈاکٹر صاحب کا بیٹا گوجرانوالہ کے کسی انگلش میڈیم سکول میں پڑھنے جاتا تھا ،۔
پچھلے دنون ڈاکٹر صاحب نے اپنے اس بیٹے کو انگلش میڈیم سے خارج کروا کر گورمنٹ پرائمری سکول تلونڈی موسے خان میں داخل کروا دیا ہے ،۔
ڈاکٹر صاحب کے اس عمل سے کسی نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ
اج جب کہسب لوگ اپنے بچوں کو بڑے بڑے ناموں والے سکولوں داخل کروا رہے ہیں ،۔
اس دور میں اپنے بچوں کو گورمنٹ پرائمری سکول میں داخل کروانا کچھ احمقانہ سا فیصلہ تو نہیں ہے ،۔
تو ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ
میں خود ڈاکٹر محمد ہونس ایم بی بی ایس اس گورمنٹ پرائمری سکول کا پڑھا ہوا ہوں ،۔
اور اج ایک ڈاکٹر ہون ، میرا چاچا ڈاکٹر ہیں اور اسی سکول کے پڑھے ہوئے ہیں ، میرے والد پٹواری ہیں اور اسی سکول کے پڑھے ہوئے ہیں ،م۔
جناب ممتاز خان صاحب سابق سیکرٹری وزارت خزانہ جن کے ایک روپے کے نوٹوں پر دستخط ہوتے تھے اسی پرائمری سکول کے پڑھے ہوئے تھے ،۔
مشہور شاعر عبدلحمید عدؔم بھی اسی سکول کے پڑھے ہوئے تھے ،۔
ہم سب اس سکول کی ننگی زمین پر ٹاٹوں پر بیٹھ کر تعلیم یافتہ ہیں ،۔
اسی سکول میں ٹاٹوں پر بیٹھ کرتعلیم لئے لوگ اج بڑے بڑے کاروباری ، ڈاکٹر انجنئیر ہیں
مثلا محمد اسحق كميار ـ ڈاكٹر اصغرمسترى ـ باؤ مختار احمد عرف باؤ كميار ـ حاجى محمد صادق كميار ـ غلام مرتضے كميار عرف حاجى ننها كميار ـ بهلّـا كميار ـ حاجى اسماعيل تڑوائى ـ
كيا خيال هے آپ كا ڈاكٹر محمد يونس ايم بىبىايس صاحب كے ان خيالات كے متعلق؟؟؟؟
ہمارے گاؤں میں ایک ڈالکٹر صاحب ہیں ڈاکٹر یونس صاحب ۔
ڈاکٹر یونس ایم بی بی ایس،۔
ان ڈاکٹر صاحب کے خاندان میں کئی ڈاکٹر ہیں ،۔
کچھ ڈنگر ڈاکٹر اور کچھ میڈیسن ڈاکٹر اور پٹواری ، مطلب یہ کہ ڈاکٹر صاحب کئی نسلوں سے پڑھی لکھی فیملی سے تعلق رھتے ہیں ،۔
ڈاکٹر صاحب کا بیٹا گوجرانوالہ کے کسی انگلش میڈیم سکول میں پڑھنے جاتا تھا ،۔
پچھلے دنون ڈاکٹر صاحب نے اپنے اس بیٹے کو انگلش میڈیم سے خارج کروا کر گورمنٹ پرائمری سکول تلونڈی موسے خان میں داخل کروا دیا ہے ،۔
ڈاکٹر صاحب کے اس عمل سے کسی نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ
اج جب کہسب لوگ اپنے بچوں کو بڑے بڑے ناموں والے سکولوں داخل کروا رہے ہیں ،۔
اس دور میں اپنے بچوں کو گورمنٹ پرائمری سکول میں داخل کروانا کچھ احمقانہ سا فیصلہ تو نہیں ہے ،۔
تو ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ
میں خود ڈاکٹر محمد ہونس ایم بی بی ایس اس گورمنٹ پرائمری سکول کا پڑھا ہوا ہوں ،۔
اور اج ایک ڈاکٹر ہون ، میرا چاچا ڈاکٹر ہیں اور اسی سکول کے پڑھے ہوئے ہیں ، میرے والد پٹواری ہیں اور اسی سکول کے پڑھے ہوئے ہیں ،م۔
جناب ممتاز خان صاحب سابق سیکرٹری وزارت خزانہ جن کے ایک روپے کے نوٹوں پر دستخط ہوتے تھے اسی پرائمری سکول کے پڑھے ہوئے تھے ،۔
مشہور شاعر عبدلحمید عدؔم بھی اسی سکول کے پڑھے ہوئے تھے ،۔
ہم سب اس سکول کی ننگی زمین پر ٹاٹوں پر بیٹھ کر تعلیم یافتہ ہیں ،۔
اسی سکول میں ٹاٹوں پر بیٹھ کرتعلیم لئے لوگ اج بڑے بڑے کاروباری ، ڈاکٹر انجنئیر ہیں
مثلا محمد اسحق كميار ـ ڈاكٹر اصغرمسترى ـ باؤ مختار احمد عرف باؤ كميار ـ حاجى محمد صادق كميار ـ غلام مرتضے كميار عرف حاجى ننها كميار ـ بهلّـا كميار ـ حاجى اسماعيل تڑوائى ـ
كيا خيال هے آپ كا ڈاكٹر محمد يونس ايم بىبىايس صاحب كے ان خيالات كے متعلق؟؟؟؟
2 تبصرے:
ڈاکٹر صاحب کافی حد تک ٹھیک کہتے ہیں ۔ آپ دسویں کے پچھلے سارے نتیجے نکال کر دیکھ لیجئے ۔ سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات میں ان بڑی بڑی فیسوں والے سکولوں کا کوئی بچہ نہیں ہوتا ۔ میرے ایک دوست جنہوں نے لاہور سے انجنئرنگ پاس کرنے کے بعد یورپ سے اکنامکس وغیرہ کی ڈگریاں حاصل کیں اور ایک عرصہ سے پاک سعودی انویسٹمنٹ میں سینئر وائس پریزیڈنٹ ہیں ۔ کہا کرتے ہیں کہ باوجود سرکاری سکولوں اور کالجوں کا نظام خراب ہو جانے کے وہاں کا پڑھا ہوئے بچے محنت کرنا سیکھ جاتے ہیں جب کہ یہ بڑی فیسوں والے بڑے سکول بچوں کو نواب بناتے ہیں ۔ میرے اپنے بچے عام سکولوں اور سرکاری کالجوں میں پڑھے ہیں ۔ بڑا بیٹا زکریا اجمل ہے شائد آپ نے کسی بلاگ پر اس کا نام پڑھا ہو ۔
خاور آپ نے ٹھیک کہا ۔ میں نے جان بوجھ کر نہیں لکھا تھا ۔ ویسے کئی بروں کے بیٹے اچھے بھی ہوتے ہیں ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ سکندر مرزا نے پاکستان کی فوج میں ہوتے ہوئے پاکستان کے خلاف سازش کی تھی ؟
ایک تبصرہ شائع کریں