بدھ، 20 جولائی، 2016

پوکے مون کیا ہے ؟

پوکے مون ،کے کریکٹرز ،۔

تحریر خاور کھوکھر: پوکے مون گو نامی ویڈیو گیم ،امریکہ کناڈا اسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے بعد اج سے جاپان میں بھی کھیلی جا سکے گی  ،
ننٹینڈو کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ سرورز کو اپ ڈیٹس کیا جا رہا ہے  ،۔
تاکہ صارفین کو کوئی دقت نہ ہو ،۔
بہت سے دوست پوچھتے ہیں کہ پوکے مون ہے کیا ؟
پوکے مون ایک ویڈیو گیم ہے ، جو کہ ایک کہانی کے کریکٹرز کے ساتھ کھیلی جاتی ہے  ،۔
کہانی  میں کچھ بچے اہنے اپنے جانور رکھتے ہیں ،۔
جن کو پاکٹ مونسٹر کہتے ہیں ،۔ جس کا مخفف ہے پوکے مون ،۔
اردو میں اس کو جیب میں رکھی جا سکنے والی بلا کہہ سکتے ہیں ،۔
جو کہ ایک مخصوص ، گیند نما ڈبی میں بند ! بچے کی جیب میں پڑے ہوتے ہیں ،۔
آپ یوں کہہ لیں کہ
بچوں کے پاس ڈیجٹل بٹیرے ہیں اور وہ بچےاپنے اپنے بٹیرے لڑاتے ہیں ،۔
ہمارے معاشرت میں پوکے مون کو سمجھانے کے لئے بٹیروں سے بہتر مثال نہیں دی جا  سکتی ،۔
جس طرح بٹیرے باز اپنے اپنے بٹیروں کی نہگداشت کرتے ہیں ،
جس طرح بٹیرے بازوں کے پاس طرٖح طرح کی نسلون کے بٹیرے ہوتے ہیں اسی طرح پوکے مون میں بچوں کے پاس طرح طرح کے مونسٹر (بلائیں) ہوتے ہیں ،۔
پر بٹیرے باز کا بٹیرا بھی ایک بلا ہی ہوتا ہے ،۔
آپ نے سنا تو ہو گا
کہ
جب بٹیرے باز بڑہک لگاتا ہے ،۔
میرا بٹیرا ، پنچہ مار کر دھرتی ہلا دے !،
بس کچھ اسی طرح پوکے مون میں پوکٹ مونسٹر بھی دھرتی ہلا دیتے ہیں ،۔
ٹی وی پر کارٹون سیریز چلتی ہے ،۔
جس میں بچے اپنے اپنے بٹیروں کی جنگ (بیٹل) کرواتے ہیں ،۔
اس جنگ میں نئے نئے پینترے ، حربے ، اور وار کئے جاتے ہیں ،۔
ہر بٹیرا اپنی ایک یونیک شکل اور صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے ،۔
ٹی وی سیریز میں دیکھے ہوئے پنترے اور حربے ویڈیو گیم میں ازمائے جاتے ہیں م،
پوکے مون گو ، کیا ہے  ،۔
پوکے مون گو میں  ایک گیم متعارف کروائی گئی ہے  ،۔
جن میں فون کے کیمرے کے ساتھ کھلاڑی اپنے اردگرد دیکھتا ہے تو اس کو اپنی دنیا میں “مونسٹر “ یعنی کہ بٹیرے نظر آتے ہیں ،۔
جن کو قابو  کیا جاسکتا ہے  ،۔
ان قابو کئے گئے مونسٹرز سے دوسرے لوگوں کے ساتھ بیٹل کیا جا سکتا ہے  ،م،۔
بلکل بٹیرے بازوں کی طرح جس کے پاس جتنے زیادہ بٹیرے ہوں گے وہ اتا ہی عزت دار بٹیرے باز ہو گا  ،۔
پوکے مون گو میں کوئی  ایک سو اکاون  قسم کے مونسٹر ہیں ،۔
جن میں سے کچھ تو بہت ہی  نایاب قسم کے ہیں ،۔
یعنی کہ گیم بنانے والوں نے،کیم میں  یہ مونسٹر کم ہی ڈالے ہیں ،۔
پوکے مون گو میں ، مونسٹرز صارف کو چلتے پھرتے اپنے اردگر مل جاتے ہیں ،۔ کچھ نایاب قسم کے مونسٹرز کے متعلق انفارمیشن مل جاتی ہیں کہ وہ کس جگہ پائے جاتے ہیں م،
بہت سے مونسٹرز پانی کے جانور کی شکل ہے ہوتے ہیں جو کہ پانی ، یعنی دریا جھیل یا سمندر کے کنارے مل جاتے ہیں ،۔
زمین میں رہنے والے جانوروں والے کونے کھدوں میں مل جاتے ہیں ،۔
اڑنے والے مونسٹرز پارکوںمیں مل جاتے ہیں ،۔
اوارہ روحیں چرچ مندر یا قبرستانوں میں مل جاتی ہیں ،۔

ہفتہ، 2 جولائی، 2016

مانگت یا مولوی

ارویا مقبول جان اور دیگر علماء میڈیا اج کل مولوی کی عزت بچانے کے لئے جھوٹ بول بول کر ہلکان ہیں ،۔
انگریز کو الزام دیا جارہا ۔ سازشی تھیوری کو سان پر چڑہایا جا رہا ہے ۔
اپ خود بھی سوچیں
کہ
کیا اپ نے کبھی احساس کیا ہے کہ
جنرل ضیاء صاحب والے اسلام کے بعد  مسجدوں کی بہتات ہو چکی ہے ،۔
ابادی ؟ سولہ کروڑ کی ابادی تھی  سن انیس پچاسی میں جو کہ اب بڑھ کر بیس کروڑ ہو چکی ہے ،۔
یعنی کہ کوئی 60% اضافہ ہوا ہے ، ابادی میں ،۔
اس طرح ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسجدوں کی رونق بڑھتی یا کہ چلو جس گاؤں میں دو مساجد تھیں وہاں تین ہو جاتیں ، چلو چار ہو جاتیں
لیکن ؟ یہاں ہوا یہ کہ
مساجد تین سو فیصد بڑھ چکی ہیں ،۔
ایسا کیون ہوا ہے
ایسا اس لئے ہوا ہے کہ
جنرل ضیاء کے اسلامی نفاذ کے دوران مودودی صاحب کی تعلیمات کی روشنی میں پاک فوج نے جو نظام روس کو زچ کرنے کے لئے بنایاتھا
اس میں مولوی کی کمائی کے لئے لوگوں کے سخاوت کے جذبات ابھار کر ، مولوی کو چندہ اکٹھا کرنے کی تکنیک سیکھائی گئی ، ۔
چندہ مانگنے کی یہ تکنیک جماعت اسلامی کے پوروگراموں سے گراس روٹ لیول تک پہنچ چکی ہے
مدرسوں میں دھڑا ڈھڑ مولوی اور مجاھد تیار کئے گئے ۔
مجاھد لوگ شہید کے مرتبے کو پہنچے
مجاھد تیار کرنے کی فیکٹریاں مساجد بنانے کے لئے چندے کے نظام کو مرتب کیا گیا
ڈھڑا ڈھڑ مولوی تیار کرتے گئے ؟
طلب اور رسد کے افاقی قانوں کے تحت ، مولوی کی رسد زیادہ ہوتی چلی گئی اور روس کے اندہام کے بعد طلب بھی ختم ہو گئی ۔
کچھ طالبان کے نام پر افغانستان کو پانچواں صوبہ بنانے کے پروجیکٹ میں ،
مولوی کی طلب برقرار رہی ۔
لیکن اخر کب تک ۔
اج مولوی بنانے کی فیکٹریاں بےحساب ہیں ۔
مولوی بھی بہتات میں ہیں ،۔
لیکن طلب نہیں رہی ،۔
جنازے ، پڑھانے کے لئے مولوی زیادہ ہیں مردے کم ہیں ،۔ بم دھماکے ، ڈکیٹی کے قتل اور نامعلوم قاتلوں کے کارگردگی کے باوجود
مولوی کی رسد ، مولوی کی طلب سے کہیں زیادہ ہے ۔
 بھیک کی کمائی سے تیار کردہ فیکٹری میں
بھیک کی کمائی کھا کر  بھیک مانگنے کا فن سیکھ کر جو مولوی تیار ہو گا
اس کی معاشرے میں حثیت کیا ہو گی ؟
یاد رکھیں
خالق کائینات نے چیزوں میں تاثیر رکھی ہے ،۔
اگر ایک بندہ پانی میں ہاتھ ڈالے کا تو اس کاہاتھ ضرور بھیگ جائے گا ۔
جو بندہ جھوٹ بولے گا اس کا اعتبار ختم ہو جائے گا ،
جو سود کھائے گا  ،اس کے جین سے محنت کی عادت ختم ہو جائے گی جس کی وجہ سے اس کی تیسری نسل مفلسی کا شکار ہو گی ۔
اسی طرح
بھیک (چندہ) مانگنے کی بھی یہ تاثیر ہے کہ  بندہ معاشرے میں ذلیل کر دیا جاتا ہے
اور یہ ہو رہا ہے مولوی کے ساتھ ،
مولوی کنگرے ، بھانڈ اور مانگت کے لیول پر اتر چکا ہے
لیکن عزت مولوی والی چاہتا ہے ۔

جہاں تک بات ہے مولوی کی تو ، جنرل ضیاء صاحب کے اسلام سے پہلے گاؤں قصبوں میں مولوی کی ایک بڑی حثیت تھی ، ہر مسجد کے ساتھ ایک رقبہ ہوتا تھا جس کے دانے مولوی صاحب کو ملتے تھے ۔
ہمارے گاؤں سے سیکرٹری وزارت خزانہ جناب ممتاز خان صاحب ہوئے ہیں ۔
جو کہ ملوانہ فیملی سے تھے ۔
ان کا خاندان گاؤں چھوڑ کر جا چکا ہے ، ان کے متروک مکان اج بھی گاؤں کے بہترین مکانات ہیں ،۔
مختصر یہ کہ اگر کوئی کہے کہ مولوی کو حقیر جاننے کا رویہ انگریز کا پیدا کیا ہوا ہے تو یہ ایک غلط بات ہے ۔

اس کے بعد جو میں نے دیکھا ہے کہ لفظ کمی ،کامے کی مختصر ہے ۔
اور میں نے یہ بھی دیکھاہے کہ کسی کو اس کے پیشے کی وجہ سے حقیر جاننے کا رویہ ہمارے علاقے میں بہت ہی کم ہوتا ہے ،۔
ہر بندے کی اقتصادی حالت ضرور اس کی عزت اور بے عزتی کا باعث ہوتی ہے ۔
اگر ایک کمہار ، یا لوہار  دانش مندی سے پیسہ کما لیتا ہے تو اس کو ئی بھی اوؤے کر کے نہیں پکارتا ،۔
اس کے برعکس اب جب کہ زمینیں گھٹ کر مرلوں تک پہنچ چکی ہے تو
جاٹوں کے بیٹے بھی ، ترکھان لوہار کا کام کر رہے ہیں ،۔
پیشہ بدلنے سے میں نے تو کہیں کسی کی عزت میں کمی ہوتی نہیں دیکھی ہے ۔
پیشہ بدلنے سے !!،۔
بھیک مانگنا کمائی ضرور ہے لیکن پیشہ نہیں ہے ، اگر پیشہ ہونے کا کہہ بھی لیں تو ؟
یہ ایک ذلیل ترین پیشہ ہے ۔

جمعہ، 1 جولائی، 2016

محاورے کی کہانی

محاورے کی کہانی!،۔
ٹرک دی بتی پچھے!!،۔
ساٹھ کی دہائی میں ، ملک تو ترقی کر رہا تھا لیکن لوگ ملک سے بھاگنے شروع ہو چکے تھے ،۔
جرمنی میں کہیں کسی لوگر ہاؤس میں  پاکستانی اور کچھ سکھ بھی  جرمن حکومت نے رکھے ہوئے تھے ،۔
ان میں سے سکھ اور مسلمان لڑکوں کی ہر روز کسی نہ کسی بات میں  مقابلہ بازی ہوتی ہی رہتی تھی ۔
کبھی گٹ پکڑنا ، کبھی پنجہ لڑانا ۔
جوان لڑکے مقابلے بازی میں اپنے اپنے ملک اور دھرم کو بہتر بنا کر پیش کرتے تھے تو بزرگ لوگ ریفری ہوتے تھے ،۔
اقبال سنگھ اور محمد اقبال کی چڑ چڑ سے تنگ ایک دن  ایک بزرگ لوگوں نے ان کو دوڑ کر اپنی صلاحیت دیکھناے کا راستہ دیکھایا ،۔
سارے لوگر ہاؤس کے لوگ ہلا شیری دینے لگے ،۔
رات کا وقت تھا ،۔
دور کہیں کسی گھر کی بتی جل رہی تھی ، پہلے محمد اقبال کو کہا گیا کہ تم اس بتی کو چھو کر واپس آؤ گے ،۔
ایک گھڑی درمیان میں رکھ کر محمد اقبال کو ون ٹو تھری کر دیا گیا ،۔
فاصلہ خاصا زیادہ تھا ، محمد اقبال کوئی ایک گھنٹے بعد واپس آیا ۔
اب باری تھی  اقبال سنگھ کی ، پہلے ہی کی طرح اس کو بھی ون ٹو تھری کروا  دیا گیا ۔
سب لوگ گھڑی دیکھ کر انتظار کرنے لگے ، اقبال سنگھ واپس نہیں پلٹا ، ایک گھنٹا ، دو گھنٹے ، تین گھنٹے ، رات بھیگنے لگی ، سب لوگ مایوس ہو کر سو گئے ، اگلے دن بھی اقبال سنگھ واپس نہیں آیا ،۔
بڑی چرچا ہوئی سب لوگ اقبال سنگھ کے لئے پریشان تھے کہ اس کو کیا ہو گیا ۔
تیسرے دن  اقبال سنگھ واپس پلٹا ، چہرئے پر ہوائیاں ، اڑ رہی تھیں ۔ سانس پھولی ہوئی تھی ، چہرہ پچک کر چوسے ہوئے آم کی طرح ہوا تھا ،۔
سب لوگ اس کے گرد اکھٹے ہوگئے ، ہر کسی کی زبان پر ایک ہی سوال تھا
کہ اقبال سنگھا ہوا کیا تھا ؟
اقبال سنگھ نے ہانپتے ہوئے بتایا
یارو، تم لوگوں نے جو بتی مجھے دیکھائی تھی وہ ٹرک کی بتی تھی ۔
اور وہ ٹرک فرینکفرٹ جا کر رکا تھا ،۔
میں اس ٹرک کی بتی کو فرینکفرٹ میں ہاتھ لگا کر واپس آ رہا ہوں ۔
حاصل مطالعہ
اس دن سے ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگتے ہوئے اقبال سنگھ کی فیلنگ کو  محسوس کرنے والا بندہ خود کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا ہوا محسوس کرتا ہے ،۔

Popular Posts