منگل، 10 نومبر، 2015

جان محمد ڈاکیا

میں نے اپنی زندگی میں کسی شخصیت کا انتظار کیا جانا دیکھا ہے تو وہ تھے ۔
باسی والا گاؤں کے جان  محمد ، جان محمد ڈاکیا!!۔
ستر کی دہائی میں  جب عربوں میں  مزدوری کے لئے جانے کا ٹرینڈ نیا نیا چلا تھا ، ان دنوں کی بات ہے کہ  ابھی فون تو تھے نہیں ، تو سب لوگ خط کا انتظار کرتے تھے ،۔
ڈاکخانے میں  گاؤں کے درجنوں لوگ  جان محمد ڈاکئے کا انتظار کر رہے ہوتے تھے اور ہر روز کرتے تھے  ۔
جان محمد ڈاکیا  باسی والا سے ڈاک نکال کر   گاؤں آتا تھا ، جہاں سے تلونڈی کی ڈاک نکال کر  تھیلوں میں بند کر کے  جنڈیالے پہنچتا تھا  ۔
یہاں جنڈیالے باغ والے میں ڈاک کا تبادلہ ہوتا تھا ،۔
جان محمد نے ڈاک کا تھیلا ، جنڈیالہ باغ والا سے اٹھانا ہوتا تھا  ، جہان  ڈاک کا تھیلا لے کر دوسرا ڈاکیا  پہنچتا تھا ،۔
جنڈیالے سے تھیلے لے کر  ایک تھیلا پیرو چک  پہنچا کر  ایک تھیلا گاؤں لانا ہوتا تھا ، اس کے بعد ایک تھیلا لے کر باسی والا پہنچتا تھا  جہاں ان کا گھر تھا ۔
گوجرانوالہ سے ڈال کے کر پہنچنے والے ڈاکیے کی لیٹ  یا کہ جان محمد کے سائیکل میں کوئی مسئلہ بن جانے پر ڈاک لیٹ ہو جاتی تھی  ۔
جس پر گاؤں والوں کی بے تابی دیدنی ہوتی تھی ۔
خاکی وردی پہنے جان محمد جیسا انتظار میں کسی اور ہوتے نہیں دیکھا ۔
بہت سے لوگون کا انتظار ہوتے دیکھا ہے ۔ کسی کا کسی جلسے میں ! لیکن اس جلسے کی حد تک ۔
کسی  دوست کا ، لیکن اس دوست کی حد تک ۔
لیکن جان محمد کا انتظار  ہر روز ہوتا تھا اور بے تابی سے ہوتا تھا  ،۔

بدھ، 4 نومبر، 2015

حاجی رفیق آٹوالیکٹریشن

گوجرانوالہ کے لاری اڈے کے سامنے کی ایک ورکشاپ پر میں آٹو الیکٹریشن کا کام سیکھنے جایا کرتا تھا ۔
گولڈن واٹر پمپ والوں کی بغل میں طارق ترپال ہاؤس کے ساتھ ،حاجی رفیق آٹو الیکٹریشن کی دوکان ہوا کرتی تھی ۔ ورکشاپ پر حاجی رفیق صاحب کا چھوٹا بھائی حاجی یوسف کام کرتا تھا ۔
میں حاجی یوسف صاحب کا شاگرد تھا ۔
 حاجی صاحبان کی بسیں بھی چلتی تھیں ۔
لاہور سے گجرات کے روٹ پر ۔
یہاں میں نے بیٹری ( لیڈ سٹوریج بیٹری) بنانی سیکھی ،۔ سیلف موٹر اور جنریٹر کی مرمت کا کام سیکھا ، گاڑیوں کی وائیرنگ کا کام میں پہلے ہی حاجی سودے سے سیکھ چکا تھا ۔
انیس سو تراسی کی بات ہے ۔
مجھے خرچے کے لئے ہفتے کے دس روپے ملتے تھے ۔  ابھی میرے بھائی بہت چھوٹے تھے گھر میں بہت غریبی تھی ،۔ ابا جی کے قرضے تھے جو اتارنے تھے ۔
کوئی تیرہ ہزار ڈالر کے قریب کی رقم تھی  ، جو کہ ان دنوں پچاسی ہزار روپے بنتی تھی ۔
کسی بھی روٹ پر چلنے والے بس کا عملہ تین افراد پر مشتمل ہوتا ہے ،۔ ڈارئیور ، کلینڈر اور ہیلپر ۔
ڈرائور اور کلینڈر ایک سکیل جاب تھی ، لیکن ہلیپر ، کوئی بھی بس سکتا تھا ۔ ہیلپر سے کلینڈر اور ترقی کرتے کرتے ڈرائیور  بن جاتے تھے ۔
ان دنوں ہیلپر کی دہاڑی پچیس روپے ہوتی تھی ۔
اپنے گھر کی غریبی کے احساس سے میں بھی کمائی کر کے کچھ ابا جی  کی مدد کرنا چاہتا تھا ۔
اس لئے ایک دن میں نے حاجی یوسف صاحب سے کہا کہ
پاء جی ! مجھے کسی بس پر ہیلپر رکھ لیں !!۔؎
حاجی صاحب نے بڑا چونک کر پوچھا کہ کیوں ؟؟
کیونکہ ہیلپر کو پچیس روپے مل جاتے ہیں ۔ مجھے کمائی کی بہت ضرورت ہے ۔
حاجی صاحب نے مجھے سختی سے ٹوک دیا
کہ
نہیں تم ہیلپر نہیں بنو گے !!۔
میرے دل میں خیال آیا کہ حاجی صاحب کو کام کرنے والے مفت کے بندے ی ضرورت ہے اس لئے مجھے روک رہے ہیں ۔
حاجی صاحب کا رویہ مجھے اپنی ترقی میں روکاوٹ لگنے لگا ۔
اس لئے میں نے لاری اڈے پر جاننے والے ایک دو دیگر بسوں کے مالکوں کو اپنی ضروت کا کہا ۔
تو دو ہی دن میں سارے جاننے والوں میں یہ بات پھیل گئی ۔
حاجی صاحب نے مجھے کہا
میں سن رہا ہوں کہ تم ہیلپر بننے کے لئے کوشش کر رہے ہو ، لیکن میں تمہیں بتا دوں کہ پنڈی سے فیصل آباد اور پشاور سے لاہور تک کے روٹ پر ،یا کہ سیالکوٹ سے لاہور  کے روٹ پر
چلنے والی کسی بس میں میں تمہیں ہیلپر نہیں بننے دوں گا ۔
گوجرانوالہ سے گزرنے والی بسوں کے مالکان ہمیں جانتے ہیں ،۔ تم جس بس پر بھی رہو گے میں اس کے مالک کو کہہ کر تمہیں نکلوا دوں گا ۔
میں حاجی صاحب کے روئے سے بہت مایوس ہوا ۔ انہی دنوں میں نے “حاجی شفیع ٹرالی میکر “ والوں کے لڑکے نواز شریف سے بات کر کے آٹوالیکٹریشن کی ورکشاپ کے منصوبے پر کام شروع کر دیا ۔
کیونکہ مجھے یقین تھا کہ بس پر ڈرائیور تو کجا کلیڈر یا ہیلپر بھی نہیں بن سکتا ۔ اس لئے صرف ایک ہی راستہ رہ گیا تھا کہ میں اپنا ورکشاپ کر لوں ۔
میری کام پر جانے کی روٹین خراب ہو گئی ،۔ ایک دن کام پر جاتا اور دو دن نواز شریف کے ساتھ گھومتا رہتا تھا ۔ استاد یعقوب سے بیٹری چارجر اور آرمیچر ٹیسٹر بنوا لیا ۔
لیکن دوکان کے کرئے کے لئے رقم نہ ہونے کی وجہ سے میں نے گاؤں میں ورکشاپ ڈالنے کا کام شروع کر دیا ۔
میری روٹین کو بگڑے دیکھ کر ایک دن حاجی صاحب نے مسکراتے ہوئے مجھے پوچھا، ورکشاپ شروع کر رہے ہو ؟
میں نے گول مگول سا جواب دیا کہ کہیں میری ورکشاپ میں بھی کوئی روکاوٹ نہ ڈال دیں ۔
میں نے ورکشاپ شروع کی
لیکن مجھے احساس ہوا کہ میں ابھی روکشاپ چلانے کے قابل نہیں ہوں ،۔
میں حاجی صاحب کے پاس واپس چلا گیا ۔
کوئی دو تین ہفتے بعد مجھے پوچھتے ہیں ، ورکشاپ کیوں چھوڑ دی ؟
میں نے کہا کہ تجربے کی کمی کی وجہ سے !!۔ تو حاجی صاحب نے مجھے کہا کہ دوبارہ شروع کرو لو میں تمیں اوزار لے کر دیتا ہوں۔
اور اگر کوئی اور بھی مسئلہ بنے تو بتانا ۔
حاجی صاحب نے بیٹریوں میں دھلائی کے لئے کچھ اوزار اور ایک پلاس مجھے دیا ۔
میں نے پوچھا کہ حاجی صاحب آپ نے مجھے ہیلپر کیون نہیں بننے دیا ؟ مجھے نقد کمائی کی ضرورت تھی ؟
تو حاجی صاحب نے کہا کہ ہیلپر بننا ، تماہرے قابل کام نہیں ہے ۔ تم نے بہت ترقی کرنی ہے ۔ اگر ہیلپر بن گئے تو تم ضائع ہو جاؤ گے ۔ْ
آج مجھے اپنے اس دور کے احساسات یاد آتے ہیں تو بڑا عجیب سا لگتا ہے
کہ
مخلص لوگوں کی باتیں اور کام کبھی کبھی سمجھ میں نہیں آتے لیکن ہمارے مستقبل کے لئے کتنے آہم ہوتے ہیں ،۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک کہانی ہے مخلص مشورے کی
اور میری کئی کہانیاں ہیں گمراھ کرنے والے مشوروں کی ۔
لیکن لکھنے میں ڈر لگتا ہے کہ خون کے رشتوں سے چپکلش شروع ہو جائے گی ۔

منگل، 3 نومبر، 2015

چوھدری ڈبے دا رحم دل پراء

اودھا ناں تے کجھ ہور سی  پر لوکی ایس کو چوہدری ڈبہ  آکھدے سن ۔
خورے ایس لئے کہ اینہوں پھلہویری  ہوئی سی تے ایدھا منہ ڈبکھڑبا جہیا بن گیا سی  ۔
بڑا کوڑا بندہ سی ، ایویں راھ نادے لوکاں نوں وی پھنڈ کڈھا سی ۔
اے وکھری گل اے کہ کئی واری ایس نوں وہ پھنڈ لگ جاندی سی تے فیر  اینہوں دوڑنا وی اؤندا سی تے بڑا تیز ڈوردا سی ۔
پنڈ دے اوتلے پاسے ، جتھوں نہر لنگدی اے  ،ایدھے نال نال اینہاں دیا پیلیاں سن ۔
مجاں وی رکھیاں ہوییاں سن ، تے کجھ کامے وی سن ۔
چوہدری ڈبہ  کامیاں کولں کم کروان دا وی بڑا ماہر سی کہ کوئی وی کاما ایدہے کول چھ مہینیاں تو بوہتا نئیں سی ٹکدا ۔
پند دا کوئی منڈا  جے ایدھے ہتھیں چڑھ نادا سی تے فیر اوس دا سارا دن  چوہدری ڈبے دے  کھوھ تے کم کردیاں ای لنگ جاندا سی ۔
مجاں لئے پٹھے وڈنے ، ٹوکے تے کترنے ، مجاں دے اگے پانے ، مجاں نوں پانی ڈاھناں ۔
جے اے سارے کم مک وی جاندے تے ، مجاں نوں نوان  دے کم تے لاء لیندا سی ۔
منڈے تے منڈے  پنڈ دے کمیاں دیاں دا کوئی بابا بزرگ وی ہتھے چڑھ جاندا تے  اودھا وی ایہو حال ہوندا سی ۔
پر چوہدری ڈبے دا وڈا پراھ بڑا ای بیبا تے خدا ترس بندہ سی  پر اینہوں تھانے کچری دے کماں لئے سارا دن شہر ای لنگ جاندا سی  ۔
تھانے کچری دے کم وی بس چودھری ڈبے  دے بنائے ہوئے ای ہوندے سن پر  وڈا پرھ بڑے شوق نال اے کم کردا رہندا سی ۔
شام نوں وڈا پراء جدوں شہروں واپس مڑدا تے سب تو پہلوں اور کھو تے جاندا سی ۔
تے سارا دن پکھے تے ترہائے اوس بندے کول جاندا سی جیہڑا بد نصیب  چوہدری ڈبے دے ہتھ چڑھ گیا ہونا سی ۔
تے فیر وڈا پراء چوہدری ڈبت¥ے وں بڑیاں گالاں کڈھدا سی ۔
کہ اوئے توں میرے ایس پتر نوں سارا دن پکھا تے ترہایا  کم تے لائی رکھیا اے
اؤئے تون جے ایدہی جان ای کڈ چھڈی  اے ظالماں
تے فیر وڈا پراء ایس بندے نوں کہندا، چل ہن تو نکل جاتے اپنے گھر جا کہ کوئی روٹی شوٹی وی کھا لے ۔
بندہ جا چھڈا کے پجن دی کردا
پر رحم دل تے بڑا ہی چنگا وڈا پراء ایس نوں تاکید کردا کہ
جے اے ڈبہ  فیر تیرے نال ایس طرح کرئے تے توں مینوں ضرور دسئیں ۔ ایس  بد دے بی نوں میں بڑا ماراں گا ۔
ڈیرے دے کولوں ای  سڑک لگندی سی  جدہے تے بساں وی لنگدیاں سن ، بساں تے بہہ کے شہر مزدوری کرن جان والے مزدور  وی ایس دے شکار بن جاندے سن ۔ چوھدری ڈبہ بس ای روک لیندا سی تے  مزدوراں نوں سارا دن کم تے لائی رکھدا  سی۔
مونجی دی لابھ لان لئی  ایہاں دناں وج چدوں لابے  مدلے ای نئیں ۔ اے مزدور لوگ لابھ لاون دی جاچ کٹ سیکھدے سن تے پکھ نال ٹرفدے زیادہ سن ۔
ایہاں  مزدوراں دی جان وہ واڈا پراء ای آ کے چھڈاندا ہوندا سی ۔
اک دن کی ہویا کہ جس بس نوں ڈبے نے کھلاریا اوس بس وچ کچھ  باجوے  جٹ منڈے شہر تاریخ بھگتن واسطے جاندے ہوئے بیٹھے سن  ۔
جدوں اینہاں نوں چوہدری ڈبے نے بسوں اتر کے مونجی دی لابھ لاؤن لئی آکھیا تے
ایہاں منڈیاں نے  چوہدری ڈبے نو  پاء لمیاں لیا  تھ بڑی پھینٹی لائی ۔
ہڈی پسلی تے نئیں بھنی پر  گجی مار بڑی ماری ،۔
چوہدری ڈبے نوں ادھ مویا کر کے اور بجویاں دے منڈے بس تے بیٹھے تے شہر ٹر گئے ۔
ایس دن وڈا پراء سویرے سویرے ای چوہدری ڈبے دی مدد نوں پہنچ گیا ، تے جدوں انہون پتہ لگا کہ کوئی منڈے  ڈے نوں مار کے شہر ٹر گئے نئیں تے  وڈا پارھ وہ ڈانگ لے سڑک تے بہہ گیا کہ جدوں اوہ منڈے واپس پلٹن گے تے اج انہاں دیاں ہڈیاں  تروڑ کے ای کلاں گے ۔
او ای گل ہوئی کہ
پچھلے پہر او باجوے منڈے  کجھ بس دے اندر سن تے کجھ بس دی چھت تے ۔
چوہدری ہوراں نے بس کھلار  لئی  تے للکارا ماریا۔
پر باجوے منڈے بجائے پجن دے اینہاں دواں پراواں تے اینہاں دے کامیاں  دے گل پئے گئے ۔
ڈبے تے ایدھے پراھ کولون ڈانگاں کھو کے ایہناں دواں پراواں نوں انت دی کٹ لائی ۔
کامے  لوک چھیتی ای لمبے پئے گئے ،تے باجوے منڈیاں نے ایہاں نوں تے کجھ نئیں  اکھیا
پر دواں پراوں نوں پھنٹی وہ لائی تے نالے بس دے وچ سٹیا تے بس چلوا کے ٹر پئے  ۔کوئی دو تن پنڈ لنگن تو بعد ایہاں دوواں پراواں دے کپڑے لاھ کے اینہاں نوں ننگیاں ای ویران سڑک تے سٹ کے ٹر گئے ۔
ایس کٹ کھان والے واقعے تو بعد وی سال ہا سال اے دویں پراء   انج ای کردے رہے کہ
اک پراھ کم کراندا سی تے دوجا  مظلوماں دی مدد کر کے اینہاں نوں فرار کرواندا سی  ۔

اتوار، 1 نومبر، 2015

فیس بک اسٹیٹس اکتوبر دوہزار پندرہ


خاوند کے مرنے کے تین سال بعد اس زنانی کو حمل ہو گیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم کے چیمہ کے انتظار علی چیمہ بتا رہے تھے
کہ
ماچھی کی موت کے کوئی تین سال بعد اس کی بیوی کو حمل ہو گیا ، سارے گاؤں میں اس بات کی بہت چرچا ہونے لگی ۔
گاؤں کے چوہدری ہونے کے ناطے  ابا جی نے اس ماچھن کو بلایا کہ یہ کیا معاملہ ہے ؟
ماچھن نے چوہدری صاحب کو بتایا کہ اصل میں چوہدری صاحب ، اپ کے ماچھی کی موت کے صدمے نے مجھے بے حال کردیا تھا ، جسم میں سے پانی خشک ہو جانے کی وجہ سے حمل خشک ہو گیا تھا اور کھرنڈ سا بن کر اندر ہی پڑا رہا، اب جب کہ  میرے دل کو کچھ تسلی ہوئی ہے اور جسم میں توانائی آئی ہے تو حمل تازہ ہو گیا ہے ۔
چوہدری صاحب نے بھی بہت تحقیق کی ، بندہ تلاش کرنے کی کوشش کی ، لیکن ان کو وہ بندہ نہیں ملا جس نے ماچھن کو پریگنٹ کیا ہو !،۔
اس لئے چوہدری صاحب نے ماچھن کو گاؤں چھوڑ کر نکل جانے کا حکم دے دیا ۔
ماچھن گاؤں چھوڑ کر چلی گئی ۔
اس کے بعد کیا ہوا ؟
اس پر تاریخ خاموش ہے کہ ایسا معجزے سے پیدا ہونے والا بچہ روحانیت کے کن بلند درجات تک پہنچا ، یا کہ اس بچے نے کیا کارنامے انجام دئیے؟؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فیس بک پر زنانہ آئیڈیز سے میں کترا کر گزر جاتا ہوں !۔
ایک اس لئے کہ زنانہ آئی ڈیز کی اکثریت  جعلی ہوتی ہے
دوسری بات یہ کہ اگر خاتوں رائیٹر نہیں ہے تو؟
اس کو قبول کرنے کی تک ہی نہیں بنتی
کہ مجھ کیا لینا کسی زنانی سے زنانہ طعنے معنے کر کے ، ہاں ایک رائیٹر خاتون کی بات دوسری ہے !۔
میں نے پہلے بھی ایک لطیفہ لکھا تھا
کہ
گاما کسی بہت ہی ہاٹ آئی والی خاتون کو  میسج کرتا ہے ۔
برائے فروخت ہو؟
خاتون غصہ کر جاتی ہے  اور گالیاں دیتی ہوئی پوچھتی ہے  تم نے یہ سوال کرنے کی جرآت کیا سمجھ کر کی ہے ؟؟
گاما کہتا ہے
اپ ، مال کی مشہوری ہی اس طرح کر رہی ہیں کہ جیسے گاہک کی تلاش ہے ۔
تو جی زنانہ آئی سے سے عزت بچائیں
بن ٹھن کر بازار میں گردن گمھا گمھا کر یہ دیکھ رہی عورتیں تو اپ نے دیکھی ہوں گی؟
جو یہ دیکھ رہی ہوتی ہیں کہ کون کون سا مرد ان کو دیکھ رہا ہے
اور اگر کسی مرد سے انکھ مل جائے تو اس کی بے عزتی کر سکیں
یہ پوچھ کر!۔
کہ کیا دیکھ رہے ہو؟؟
فیس بک پر احتیاط کریں ، کسی دوست کی وال پر کی گئی کومنٹ پر ریپلے پر اگر وہ آئی زنانہ ہوئی تو ؟
کہہ سکتی ہیں ، خبرادا میری کومنٹ پر ریپلے کیا تو ( ٹٹ پینا ، مرنا گونگلو جہیا ناں ہووئے تے )۔
::
فیس بک پر زمانے کے ساتھ ساتھ چلنے کے لئے اجتہاد سے نئے اصول وضع کرنے کی کوشش ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فیس بک پر فرینڈز کے متعلق میرے اصول
سب سے پہلے کہ میں کون سے لوگوں کو فرینڈز ریکوسٹ بھیجتا ہوں ؟
اردو میں لکھنے والوں کو !۔
اس امید پر کہ عظیم لوگ قبول کرلیں تو مہربانی نہ کریں تو شکوہ نہیں ہے ۔
دوسرے ان لوگوں کو جن کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں ۔
میں کن لوگوں کی فرینڈ ریکویسٹ قبول کرتا ہوں ؟۔
اردو میں لکھنے والوں کی !!۔
جن لوگوں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں
اور وہ لوگ جن کا مجھے علم ہو کہ جاپان میں مقیم ہیں ۔
اگر اپ میری فرینڈ لسٹ میں شامل ہیں تو؟
اپ ایک بہت ہی معتبر اور معزز انسان ہیں ۔
میں اپ کی عزت کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اپ بھی میری عزت کرتے ہوں گے ۔
آپ سب کا مخلص
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پرانے زمانے میں لوگ سیاست کی “ بات “ سنتے تھے اور
مسخروں پر ہنستے تھے ۔
نئے زمانے میں لوگ مسخروں کی سنتے ہیں اور سیاست پر  ہنستے ہیں ۔

اخر کار میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ
فی زمانہ ، لوگ اپنے ٹیلی فون کے قیدی  ہیں ، اس لئے تو یہ اس کو “سیل” فون کہتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گورے نے  طوطا رکھا ہوا تھا
جو اس کو ہر روز صبح  سوتے سے جگانے کے لئے کہتا تھا
گڈ مارننگ سر ، ویک اپ سر، یو ہیو تو گو ورک !!۔
گورے کا تبادلہ پاکستان ہو گیا
چھ ماھ بعد طوطے کی بولی بدل گئی ۔
اب طوطا کہتا ہے ۔
اٹھ  جا کھوتے دیا پترا ، کم تے نکل ، سور وانگوں لمبا پیا ائیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مودی کی نقل میں اپنے جرنل صاحب بھی فیس بک کے ہیڈ آفس میں دورے پر گئے ۔
انہوں نے مارک سے سوال کیا کہ
اپ کے یہاں بہت سے انڈین انجنئیر کام کرتے ہیں ! کیا یہاں کوئی پاکستانی بھی کام کرتا ہے ؟
مارک : یس آف کورس ،۔ کہہ کر مارک ہانک لگاتا ہے ۔
اوئے لیاقت  اپنے جرنل صاحب لئی چاء لے کے آ اؤے !!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پنجابی ماں : لے پتر روٹی کھا لے ،دال پکی آ ۔
بیٹا : ایوری ڈے دال اینڈ ویجیٹیبل ؟ آئی ہیٹ دال ، ماما ، گیو می سم مٹن اینڈ بیف !!۔
پنجابی ماں : چل پتر ،سکول دا سبق بعد وچ سنائیں ، پہلوں روٹی کھا لے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ جو کالے شیشوں کا والی عینک ہوتی ہے ناں ؟ جس کو سن گلاسز کہتے ہیں ۔
یہ صرف شو شاء کے لئے نہیں ہوتی ہے ۔
یہ اس لئے ہوتی ہے کہ کیمرے کے فلیش سے  یا کہ پرستاروں کی آوازوں سے  لوگوں کو یہ نہ پتہ چل جائے کہ  “عظیم چیز” انکی طرف دیکھ رہی ہے ۔
اصلی عوامی نمائیندے  کتنے بھی طاقتور عہدے تک پہنچ جائیں  ، کالی عینک پہن کر عوام میں نہیں آتے ۔
کالی عینک وہ پہنتے ہیں  جن کو یقین ہوتا ہے کہ وہ انسان  نہیں بلکہ کوئی “ نازل “ کی گئی چیز ہیں ۔
یا پھر “بیمار لوگ “ پہنتے ہیں ۔

جماعت کی ایک کوالٹی ضرور دیکھی ہے
کہ
مکہ کے قبلہ ماننے والوں سے  نظریاتی  مسلکی  اور دیگر اختلافات  بہت سخت  بلکہ خون خرابہ کرنے تک سخت ہیں ۔
لیکن جی ایچ کیو کو قبلہ ماننے والے  نئے یا پرانے ، کسی کی بھی  کسی بھی طرح کی مخالفت نہیں کرتے ،۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


نوکرانی دوڑتی ہوئی آ کر اچھو کو بتاتی ہے ۔
صاحب جی صاحب جی 
وہ ناں بی بی جی سوئی ہوئی ہیں اور ان پر سانپ چڑھ گیا ہے 
بی بی جی کو بچاؤ سانپ ڈنگ نہ مار دے ۔
اچھو بڑے اطمینان سے نوکرانی کو تسلی دیتا ہے 
کجھ نئیں ہوندا جھلئے ۔
سانپ کا زہر ختم ہو گیا ہو گا ، بی بی کو ڈنگ مار کر زہر چارج کرنے آیا ہو گا ۔

کہیں کسی سڑک پر جو کہ ابادی سے دور تھی اس پر ایک مولوی اور اس کا شاگرد بچہ بورڈ لئے کھڑے تھے ،۔
جس پر لکھا ہوا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت بہت  کم ہے !!۔
رک جائیں
ہم اپ کی زندگی بچا سکتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک  گاڑی والا وہاں سے گزرا ، اس نے بورڈ دیکھا  اور نظر چرا کر گزر رہا تھا لیکن شاگرد بچے نے اشارہ کر کر کے اس  کو بورڈ دکھایا لیکن گاڑی والا منہ میں بڑبڑاتا ہوا گزر گیا
یہان اس ویرانے میں بھی چندہ مانگ رہے ہیں ۔
 شاگرد نے مولوی کی طرف دیکھا
مولوی نے کہا
جیسے اللہ کی مرضی!!۔
کچھ دیر بعد ایک ٹرک گزرا  شاگرد نے ٹرک والے کی بھی توجہ بورڈ کی طرف کی لیکن ٹرک والا بھی نہیں رٗکا ۔
 مولوی صاحب نے پھر فرمایا
جیسی اللہ کی مرضی ۔
ٹرک کے گرنے کی آواز آتی ہے ، جس میں ڈرائیور کی چیخ بھی شامل ہوتی ہے ۔
مولوی صاحب پھر فرماتے ہیں ۔
جیسے اللہ کی مرضی ۔
تو
شاگرد تپا ہوا بولتا ہے
مولوی جی !!۔
 اللہ کی مرضی اپنی جگہ
ہم لوگ ہی بورڈ کی  تحریر تبدیل کر کے یہ کیوں نہ لکھ دیں
کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگے پل ٹوٹا ہوا ہے ۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مولوی صاحب در گزر  پر درس دے رہے تھے
اور کہہ رہے تھے کہ اپنے دشمنوں کو معاف کر دینا ہی عظمت کی نشانی ہے ۔
لمبے درس کے بعد مولوی صاحب سب کو کہتے ہیں ، اج میرے سامنے اپ لوگ اپنے سب دشمنوں کو معاف کر دیں ۔
اور صاف دل سے  جس جس نے اپنے دشمنوں کو معاف کر دیا ہے وہ ہاتھ کھڑا کرئے ۔
 سب لوگوں نے ہاتھ کھڑے کر دئے ، سوائے مودے لومبڑ کے !۔
 مولوی صاحب نے مودے لومبڑ سے پوچھا
مودے ، کیا تم اپنے دشمنوں کو معاف نہیں کرو گے ؟
 مودا لومبڑ: مولوی جی میرا کوئی دشمن ہی نہیں ہے ۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟
تم زرا یہاں ممبر کے قریب آ کر بتاؤ۔
مودا لومبڑ  ممبر کے قریب آ کر  سپیکر کا مائیک پکڑتا ہے
اور بتاتا ہے ۔
یقین کرو جی میرا کوئی وی دشمن نئیں ہے
میں اونج ای  پین چود لوکاں کولوں دور رہنا واں ۔
بمع مولی سارے مجمعے کو چپ ہی لگ گئی ،۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کا اسلام   ، انگلی اٹھانے والے پر بندوق اٹھا لیتا ہے ۔
اور  اسلام پر بندوق سے چڑھ دوڑنے والے امریکہ سے بھیک کی امید کرتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیونکہ ؟ وہ ایک "متروس " قوم ہیں ۔ وہ سب ترس کی تلاش میں ۔
بلکہ وہ انتہا کی متروس قوم ہیں
ترس کھانے والے قومیں بڑی قومیں ہوتی ہیں اور متروس قومیں بس ایک ہجوم ہوتا ہے ، ْ
جو تلاش میں ہوتی ہیں ایک خصم کی جو ترس کھائے  ان کی ہر ہر ادا پر
امریکہ نہ سہی چین ہی سہی ،برطانیہ نہ سہی روس ہی سہی ،بس ایک ترس کھانے والا چاہئے ہوتا ہے متروس قوم کو  ۔ْ

یہاں ایسے ایسے  متروس پائے جاتے ہیں
کہ پھوپھی کی نند کی بیماری ، چاچے کے سانڈھو کی بھینس مرنے پر بھی فیس بک پر اسٹیٹس بنا  کر ترس  کے طالب ہیں ۔
ابّے کے پھپڑ  کی موت  ، دادے کے سسرال میں بے بے کی موچ پر بھی  متروس لوگوں کو   ترس کی طلب ہوتی ہے  ۔
مجھے متروس لوگوں کی ترس کی طلب پر ترس آتا ہے  ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسجدوں میں آنے والے نمازی ! مسجد کے متولیوں کی نظر میں “انڈہ دینے والی مرغی” ہوتے ہیں ۔
جن کی تعداد بڑھانے میں  “منافع” ہے ۔
اسی لئے تو عبادات کی تبلیغ کی جاتی ہے ، تعمیر معاشرت کی نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھو ڈنگر ، گامے کے پاس بندھے جانور کو دیکھ کر حیران ہو کر  پوچھتا ہے ۔
اوئے گامیا ؟ یہ تمہارا کتا تو بلکل شیر لگتا ہے شیر ، اس کیا کھلاتے ہو ؟
گاما: اوئے ڈنگرا ، یہ کتا نہیں شیر ہی ہے  ، بس فیس بک پر  “کتیّ کتّی “ باتیں اور ایمج شئیر کر کر کے  اس کی شکل کتے جیسی ہو گئی ہے  ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دوسرے سے : جو بندہ اپنی بات کسی کو سمجھا نہ سکے ! وہ بھی بیوقوف ہوتا ہے ۔
دوسرا : مجھے اپ کی بات کی سمجھ نہیں لگی !!!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک پرانا لطیفہ ہے
کہ
کہیں کسی پاغل خانے کے قریب ایک بندے کی گاڑی پکنچر ہو گئی ،۔
بندے نے گاڑی کا ٹائیر بدلنے کے لئے  نٹ اتار کر نزدیک رکھے اور ڈگی سے شپئیر ٹائیر نکالنے گیا
کہ
نٹ ڈھلک کر ڈھلان سے  پھسل گئے اور کھائی میں جا گرئے ۔
بندہ پریشان کھڑا ہے کہ پاغل خانے کی کھڑکی سے جھانکتے ایک پاغل نے اس کو کہا ۔
بھائی صاحب  ! باقی کے تینوں ٹائروں کے ایک ایک نٹ کھول کر اس ٹائر کو لگا لو ، نزدیکی آبادی میں پہنچ کر  نٹ پورے کر لینا۔
بندہ بڑ خوش ہوا اور خوشی سے کہنے لگا
یار تم ہو تو پاغل  لیکن تم نے آئیڈیا بڑا کمال کا دیا ہے ۔
پاغل نے فرمایا! ہاں جی ، میں پاغل ضرور ہوں  ، لیکن بیوقوف نہیں ہوں ۔
جرمن زبان کا ایک محاورہ ہے
دنیا کو نقصان  نہ تو پاغل دیتے ہیں اور ناں ہی عقلمند  ، نقصان دہ لوگ وہ ہوتے ہیں جو  نیم عقلمند ہوتے ہیں ۔
فارسی کا بھی تو ایک محاورہ ہے ناں جی
نیم حکیم  خطرہ جان ، نیم ملاّ خطرہ ایمان  ۔

میں بھی ایک نیم عقل مند ہوں ، اور اس فکر میں رہتا ہوں کہ لوگوں کو پتہ نہ چل جائے
اس لئے میں عقلمند لوگوں سے بات چیت کر کے ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں ۔
ایک سوال: تسّی کس پوزیشن وچ او ؟ تے تسّی کی کردے او ؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج  ایک بڑی دلچسپ شخصیت سے ملاقات ہوئی ہے ۔

موصوف (چوھدری صاحب) سائیتاما کین کے شہر “کاس کابے “ میں رہائیش رکھتے ہیں ،۔
ان کا کائی تائی یارڈ  کازو میں ہے ، بقول چوہدری صاحب کے چوہدری صاحب بڑے مضبوط کاروباری ہیں ،۔
عرصہ تیس سال سے “ کاس کابے” میں رہائیش کا بتا رہے تھے ،۔
میں نے  کہا جی کس کابے میں میں دو تین چیزیں ہی جانت اہوں ،۔
ایک اپنے  جاپان کی پاکستان کیونٹی کے ایڈمن  “ غازی عالم “ کو ۔۔۔۔!ْ
میں ابھی یہیں تک پہچا تھا کہ بات کاٹ کر  غازی عالم سے اپنی شناسائی کا باتانے لگے ، ہاں ہاں ابھی نیا آیا ہوا لڑکا ہے ۔ کاس کابے میں ہم تو پرانے ہیں ناں۔
میں  نے پھر بات شروع کی ، وہ راشد صمد  فیس بک فوٹو لگاتا ہے ایک ریسٹورینٹ  نواب رہسٹونٹ کاس کابے ۔۔۔۔۔!۔
چوہدری صاحب بات کاٹ کر بتانے لگے کہ  راشد صمد پوچھ لینا جی میرا وہ مجھے اچھی طرح جانتا ہے  ۔
میں نے پھر بات شروع کی اور ایک  میں جانتا ہوں کاس کابے کے “کریو شین چان “ کو ۔۔۔۔!،۔
چوہدری صاحب نے بات کات کر پھر پوچھا  وہ کون ہے ؟؟
میں ے بتایا کہ ایک اینمیشن کریکٹر ہے  ، ٹی وی سیریز کا ۔۔۔َ
ہاں ہاں اچھا اچھا !! میں جانتا ہون اس کے باپ کا “ایزاکا” ریسٹورینٹ ہے ۔
میرے قریب ہی ہے ۔
بلکہ میری کریو شین چان سے کئی دفعہ ملاقات بھی ہو چکی ہے ، وہ لڑکا  ہمارے رہسٹورینٹ میں آتا رہتا ہے  ۔۔
میں کراھ کر بس اتنا ہی کہہ سکا
چوہدری صاحب اپ نے تو مجھے لاجواب ہی کردیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے پیدل چلنا پسند ہے ،۔
کیونکہ پیدل چلنے میں  “انسان “ کا ایک قدم  “ ہمیشہ “ زمین پر  رہتا ہے  ۔
زمین جو کہ دھرتی  ماتا ہے ، ۔
 نودولتیوں سے معذرت کہ جو دھرتی سے پاؤں اپنی کوشش سے اٹھا لیتے ہیں، اور زمانے کے جغادری ان کی ٹانگیں اٹھوا لیتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاپان سے تخلیقی ادب کے واحد رائیٹر ، اردو بلاگر ، انسائکلوپیڈیا منتظم ، روزنامہ جاپان کے بانی ۔ خاور کھوکھر کا کہنا ہے کہ یہ تحریر مبالغے پر مبنی ہے ۔
....................................
کوئی نوہزار پاکستانی لوگ ہیں یہان ، جن میں سے کوئی دو ہزار کے قریب گاڑیوں کے کاروبار میں ہوں گے ، جو کہ جاپان کے گاڑیوں کے کاروبار کا زیرو اعشاریہ  صفر صفر نو فی صد ہو گا ۔

بغیر زر ضمانت کے بولی میں حصہ لینے والے بات کہ حقیقت یہ ہے کہ  یو ایس ایس نامی اوکشن کی ممبر شپ  لینے کے لئے کئی لوگ ذلیل ہوتے دیکھے ہیں ، اور کئی کی ممبر شپ کینسل ہوتی دیکھی ہے ۔
تین ملین ین سے زیادہ کی خریداری پر  ، منڈی سے بغیر ادائیگی کئے مال نہیں نکال سکتے  ۔
توچیگی کے آرائی اوکشن میں پاکستانیوں کی سب سے زیادہ تعداد دیکھی جا سکتی ہے  ۔
جو کہ اوکشن کے کل ممبران کا کوئی  دس فیصد ہو سکتا ہے  ۔
نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ کوئی بھی پاکستانی گاڑیوں کے کاروبار میں اتنا ہی ہے کہ وہ جاپان  کی وہ گاڑیاں جو جاپانیوں کے معیار کہ نہیں رہیں ہیں وہ خرید کر یا تو پارٹس کر رہا ہے ( خاور کی طرح ) یا کسی دوسرے ملک میں کھپت کے قابل ہے ،۔

باقی پاکستانیوں کے تابکاری کے خوف سے جاپان نہ چھوڑے کی بابت یہ بیس مارچ دوہزار گیارہ کی روز نامہ اخبار کا ایک جاپانی کا پیغام دیکھ لیں ۔
http://gmkhawar.net/?p=4862
تیسری بات کہ  سلمان رشدی کی کتاب کے ترجمعے پر پاکستانی اثر انداز ہوئے تھے ،
بلکل غلط ہے ۔
اس کتاب کا ترجمعہ کرنے والا پروفیسر  اباراکی کی تسکوبا  یونیورسٹی میں چھریون کے وار سے قتل پایا گیا تھا  ۔
جس کا قتل اج تک نہیں مل سکا ، جس کے متعلق  پوس کا اندازہ ہے کہ اٹالین پاسپورٹ پر سفر کرنے والے بندہ تھا ، جس کی  قومیت کا پتہ نہیں ۔
خاور  کھوکھر
http://khawarking.blogspot.jp/

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رب نے سانوں پیار دتہ تے ایس پیار نوں دوگنا کر کے دین لئی سانوں ماں دے دتّی۔
تے ماں نے اپنی محبت سانوں بھائی دے کے ایس  محبت نوں “ جاگ “ لاء دتّی ۔
 لسی دی طرح ہور ودھا کے پیار دا آنت کر دتّہ!!۔
اللہ میراے بھائیاں  نوں سدا سلامت رکھے ، تے اینہاں نوں آنت کا عروج دے ۔
آمین!!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے ہفتے مجھے  اپنے جاپانی سسرال  ناگانو  جانے کا اتفاق ہوا ۔
وہاں پہنچتے ہیں ،ٹیبل پر سلاد میں خنزیر کے گوشت کے قتلے دیکھ کر  طبیعت بہت خراب ہوئی ۔
تین دن میرا کچھ بھی کھانے کو جی نہں چاہا ۔
تین دن میں ساکے ( چاولوں کی شراب ) اور مونگ پھلیوں سے گزارا کرتا رہا  ۔

ایک دوست کی فیسبک وال سے ماخوذ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امریکی چاند سے آگے کسی اور دنیا  کو تلاش کرنے کی فکر میں ہیں ۔
چینی زمین کی نوے فیصد مارکیٹ  ہر چھا جانے کی فکر میں ہیں ،۔
جاپانی  دنیا کی ایک نمبر اقتصادی طاقت بننے کی فکر میں ہیں ۔
اور ایک میری قوم ہے
کہ
صرف اس فکر  سے ہی نہیں نکل سکی
کہ بجلی آنی ہے اور موٹر چلا کر  پانی کی ٹنکی بھرنی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساری دنیا ، پٹرول کو لیٹروں اور کلو میٹروں میں  ماپتی ہے ۔
میرے خیال میں  میری قوم دنیا کی واحد قوم ہو گی جو پٹرول کو دنوں میں ماپتی ہے ۔
کسی کی کار کی ٹنکی کا پٹرول  چھ دن نکالتا ہے
اور
میری کار کی پٹرول کی ٹنکی  چار دن چلتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاہین یا باز بھی ایک عجیب پرندہ ہے
بلکل نوکری پیشہ  بندے جیسے
اس کا مالک اس کو فضا میں چھوڑ بھی دے تو ، تھوڑے سے گوشت کے لئے پھر پلٹ آتا ہے ۔
اس  سے تو چڑیا ، کوا یا  طوطا  آزاد طبیعت کے پرندے ہیں ،۔ سالہاسال قید کر کے رکھو جب بھی چھوڑو کے  ،اپنی دنیا میں پلٹ کر ہی دم لیں گے
اگر چہ کہ قید کی نقاحت سے بقا کی جنگ کرنے کے قابل نہ رہے ہوں ۔
بقا کی جن میں ہار کر مر جائیں گے ، “ ماسٹر “ کے غلام نہیں بنیں  گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کے مشہور بلاگر، ہمارے محترم دوست جناب شعیب صفدر گھمن صاحب کی پوسٹنگ  یو کے (UK ) میں ہو گئی ہے ۔
گھمن صاحب ٰ یو کے ( ) میں سرکاری وکیل کے طور پر اپنا عہدہ سنبھال کر  کام شروع کر چکے ہیں ۔
یہ دوہزار پندہ ہے  ، کوئی برٹش گورمنٹ نہیں ہے کہ کسی دیسی وکیل کو براطیہ میں تعین کر دیا گیا ہو گا ۔
کراچی والے   عمر کوٹ ( UmerKot) کو   یو کے ( UK) کہتے ہیں  ۔
Shoiab Safdar Ghumman

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاپان میں اگر اپکی طرف کسی کی رقم نکلتی ہے تو ؟
پندرہ ین کی رقم کے تقاضے کے لئے ،اسّی ین کی ٹکٹ لگا خط بھی اپ کو مل سکتا ہے ۔
دس ین کی فون کال ،اور ایک ہزار ین گھنٹے پر کام کرنے والے  دو افراد چار ہزار ین کا پٹرول خرچ کر کے اپ سے وصولی کے لئے بھی آ سکتے ہیں ۔
جب تک وصولی مکمل نہیں ہو گی فائل بند نہیں ہو گی ۔
اسی طرح اگر اپ کو کسی نے سو ین ادا کرنا ہے تو ؟
دو سو دس ین  بنک کی فیس دے کر اپ کو اپ کی رقم اپ کے آکاؤنٹ میں پہنچا دی جائے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور میں ، نو من سوّر کا گوشت پکڑا گیا !!۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ سوّر کی فارمنگ کہاں ہوئی ؟
سور کے گوشت کو پہچنانا کس نے ؟
اس پہچاننے والے کی گوشت کو پہچاننے کی تعلیم کیا ہے ؟
سب سے بڑی بات کہ” سور آئے کتھوں ؟؟؟”۔
،۔
لاہور کے ہوٹلوں میں “ گندگی “ ایک افسر نے دیکھائی ،اس افسر کا نام آیا گندگی کی موجودگی ایک حقیقت تھی ۔
کھانے کی چیزوں کی ایک بے ترتیبی کی حقیقت کو دیکھا کر  لوگوں کے ذہن بن گئے ۔
تو
میڈیا نے گدھے ، گھوڑے کے گوشت کے بعد سوّر (خنزیر) کے گوشت کا واویلا مچا کر  لوگوں کو گوشت سے ہی بد ظن کرنا شروع  کر دیا ۔
اب لوگ کھائیں گے کیا ؟
مچھلی  مہنگی ہے۔ اور چکن دستیاب!!!۔
چکن فارمنگ انڈسٹری  کی جے ہو !!!!۔
پاکستان میں چکن فارمنگ اصغر خان کے بیٹے نے انیس سو اکیاسی میں متعارف کروائی تھی
آج کل کس کا بیٹا اس چکن کی انڈسٹری کو چلا رہا ہے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے برٹش میوزیم میں فرعونون کی بنائی ہوئی ململ کے تھان دیکھے ہیں ۔
جو بلکل ہمارے جولاہوں کے بنے ہوئے ململ جیسے باریک تھے ۔
میں اس تصویر کو " حضور" سے منسوب کرنے کی کستاخی نہیں کر سکتا
لیکن
ایسا باریک کپڑا بننا مصر اور ہند میں تو ممکن تھا اور ہے
لیکن ہمیشہ سے اخلاقی ، تکنیکی اور تاریخی طور پر پسمنادہ عرب کے لوگ شائد اج بھی اس قابل نہ ہوں !!۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ پاپی پیٹ سے زیادہ عزت نفس اور مستقبل کے غیر محفوظ ہونے کے اندیشے ہیں ، جو ہجرتوں کا باعث بن رہے ہیں ۔
اسلامی ممالک میں جو دین ( سسٹم ) رایج ہیں ، وہ منافقت جھوٹ اور چھینا جھپٹی والے ہیں ۔ ان میں کمزور لوگوں کو اپنے بچوں کا مستقبل غیر محفوظ نظر آ رہا ہے ۔
اگر کوئی بندہ جاپان میں بیٹھ کر مجھے اسلام کی حقانیت کا درس دے گا تو ؟
اس کی ہجرت کے پیچھے بھی یہی عوامل تھے ۔

Popular Posts