جمعہ، 30 اکتوبر، 2015

فیس بک اسٹیٹس ستمبر اکتوبر ۲۰۱۵ء


اس کائینات میں عزازئل  سے بڑا عبادت گزار نہ کوئی ہوا ہے اور نہ ہو گا۔
اللہ کی وحدت کا گواہ ، فرشتوں کا استاد  عظیم ترین عبادت گزار ،عزازئیل صرف اور صرف اس لے شیطان ابلیس ٹھیرا
کہ
اس نے آدم کو حقیر جانا تھا
اج ! ہمارے اردگرد بہت سے عبادت گزار  اور عبادتوں کی تبلیغ کرنے والے ، سنت عزازئیل کے چلتے پھرتے نمونے  بھی “ ابن آدم “ کو حقیر جانتے ہیں ۔
تو ؟
اہل علم ایسے لوگوں کو نفرت  اور طعن کے کنکر مار کر سنت ابراہیم کو زندہ رکھتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میرا قبیلہ مسلمان تھا تو ہر معرکہ ہم ہی جیتا کرتے تھے ۔ وہ کارزار حیات ہوتا تھا کہ کارزار علم عمل۔
پھر کیا ہوا کہ  “وہ “ مسلمان ہو گئے ،اور میرا قبیلہ گم راھ !!!،۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 جاپان میں سیاست کرنے والے اور سیاسی لوگوں کے لئے اور ان لوگوں کے لئے ، جو خود کو کسی بھی طریقے سے عوام دوست بنا کر پیش کرتے ہیں ۔
ان کے لئے ایک پیغام
کہ میڈیا ، یا کہ رائیٹر لوگوں  کا آپ لوگوں کے ساتھ  رویہ کیسا ہونا چاہئے اور کیوں ہونا چاہئے ؟
سب سے پہلے  سیاستدان کی ڈیفینشز
کہ سیاستدان ،سوشل ورکر کی اعلی ترین قسم کے ورکر کو کہتے ہیں ۔
جس کو عوام اگر چن کر اگے لاتی ہے تو اس لئے کہ  حکومتی اہلکار لوگوں کے علم اور ہنر سے عوام کا پیسہ خرچ کر کے اپنی سوشل ورکنگ کی “ جبلت” کا انت کر لو !!۔
سڑکیں بناؤ ، ڈیم بناؤ ، یا کہ لوگوں کی اسانی کے لئے اصول اور قانون بناؤ ۔
سوشل ورکنگ کے کام کرنا اپ کی کوالٹی ہونی چاہئے ۔
جس طرح جاپان میں اگر اپ کے پاس گاڑی چلانے کا ڈرائیونگ لائیسنس ہے تو اپ سڑک پر گاڑی چلا سکتے ہیں ۔
آپ ساری زندگی بھی گاڑی کو محفوظ اور بااصول ڈارئیونگ سے چلاتے رہیں ۔
آپ کو کسی بھی سڑک پر یا چوک میں کھڑا کر کے  پولیس والا کبھی بھی کوئی ایوارڈ نہیں دے گا۔
اپ کبھی بھی اپ کی اچھی ڈرائیونگ پر اپ کو  کوئی ٹریفک کانسٹیبل  کوئی انعام نہیں دے گا ۔
کیونکہ یہ اپ کی ذمہ داری ہے کہ اپ اصول و ضوابط کے ساتھ گاڑی چلائیں ۔
لیکن
اگر
کہیں کبھی  کسی موڑ پر اپ سے غلطی ہو جاتی ہے ، تیز رفتاری ، سیٹ بیلٹ نہ باندھنا  وغیرہ
تو؟
اگر کوئی پولیس والا اپ کو دیکھ لے گا تو اپ کو جرمانہ ضرور برضرور کرئے گا ۔
اسی طرح اگر اپ سوشل ورکر ہیں تو
اپ اپنا کام کرتے رہیں ، معاشرے میں سدھار کے کام ، لوگوں کے مسائل کے حل ، لوگوں کے مصائب  میں کمی کی کوشش کرتے رہیں
یہ اپ کی ذمہ داری ہے کوئی باصول رائیٹر اس بات پر اپ تعریف میں اگر کالم لکھتا ہے تو  وہ بے اصولی کرتا ہے ، جس پر ہو سکتا ہے کہ اپ نے پیسے دے کر مجبور کیا ہو  ،اور یہ اپ کی بھی بے اصولی ہے ۔
خاور جیسا  خودار اور خود انحصار رائیٹر اپ کی حاشیہ برداری نہیں کرئے گا۔
اپ کی بے جا تعریف نہیں کرئے گا ۔
ہاں
اگر اپ نے کوئی غلطی کی تو
اس کی نشاندہی ضرور کرئے گا
اگر اپ کو یہ ناگوار گزرتا ہے تو؟
اپ سیاستدان نہیں ہیں ، اپ سوشل ورکر نہیں ہیں
اپ صرف اور صرف شہرت کے بھوکے ہیں ۔
اس لئے بات کو سمجھنے کی کوشش کریں
اور اپنی معاشرتی حثیت کو پہچانیں
اور رائیٹر لوگوں کی معاشرتی پوزیشن کو ذہن میں رکھیں ،۔
رائیٹر لوگ  معاشرے کی انکھ ہیں ، کان ہیں اور زبان ہیں ۔
یہ لوگ جو سنیں گے ، جو دیکھیں گے وہ لکھ کر چھوڑ دیں گے  ۔
انے والے زمانوں کا تاریخ دان ان رائیٹروں کے لکھے کو پڑھ کر تاریخ مرتب کرئے گا
یار رکھیں کیکر بو کر اپ آم نہیں اتار سکتے ۔
اگر اپ اچھے ہیں تو اپ کو اچھا لکھا جائے گا
اور اگر اپ منافق ہیں تو اپ کو منافق ہی لکھا جائے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاپان نے تقریباً ہر بڑے شہر  میں  جہاں گومی (کچرا) جلانے کا پلانٹ ہوتا ہے اس کے ساتھ گرم پانی کا سوئنمگ پول اور “سینتو” بھی ہوتا ہے ۔
ببل باتھ ، گرم پانی کی ٹکور ، اور ابشار بنے ہوتے ہیں ۔
ان غسل خانوں میں بنے ہوئے ابشار اس لئے ہوتے ہیں کہ ان کے نیچے کاندھے کر کے اس پر مکے مار مساج کیا جاسکے ۔
جن لوگوں کو “کاتاکوری” ( گردن اور کاندھوں کے مسل کی تھکاوٹ ) ہوتی ہے ان کے لئے یہ آبشار بہت بڑی نعمت ہوتے ہیں ۔
ان غسل گھروں میں نیم گرم پانی ،کچھ گرم پانی اور بہت گرم پانی کے تالاب بنے ہوتے ہیں ۔ پر تلاب کی ساخت پڑی خوبصورت اور علیحدہ طرز کی ہوتی ہے ۔
لیٹنے والے ٹب ، اکھڑوں بیٹھنے والے ٹب  یا ہلکی سی تیراکی کرنے کے قابل وسیح ٹب موجود ہوتے ہیں ۔
عام طور پر یہ غسل گھر ، صبح نو بجے سے رات نو یا دس بجے تک کھلے ہوتے ہیں ۔
میں اپنے شہر کے گسل گھر میں اتوار کے روز صبح نو بجے پہنچ جاتا ہوں ۔
اس وقت بہت کم لوگ ہوتے ہیں ۔
بلکہ دس بجے تک عموماً یہ ہوتا ہے کہ میں اکیلا ہی ہوتا ہوں ۔
گرم پانی ، صاف ستھرا ماحول ، شیشے کی دیواروں کے پار ہریالی ، اور آبشاروں کے گرتے پانی کے ترنم میں  مود خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین بندہ محسوس کرتا ہوں
کہ یہ ماحول میں اکیلا بندہ کتنی بھی کمائی کر لیتا  ، کبھی بھی نہیں بنا سکتا تھا ۔
اگر اپ کو یہ الفاظ برے نہ لگیں تو
یقین کریں کہ میں سوچ رہا ہوتا ہوں کہ یہ عیاشی کی انتہا ہے ۔
پریشر سے نکلنے ہوئے گرم پانی کے اوپر کر کے پیروں کو مساج کرنے کا اپنا ہی لطف ہے ، ایک گدگدی کا احساس ، راحت سے نیند سی انے لگتی ہے ،۔
ساتھ میں ساؤنا ہے جس میں بیٹھ کر پسینہ لیا جاسکتا ہے
لیکن مجھے ساؤنا پسند نہیں ہے ،۔ میں گرم پانیوں سے لطف لیتا ہوں ۔
یاد رہے کہ اس غسل گھر میں اپ نہانے کے مخصوص لباس کے بغیر داخل نہیں ہو سکتے۔

 اس سوئمنگ پول کے ساتھ ہی سینتو ہے ۔ یہاں سارے کپڑے اتار کر
مختلف سائز اور مختلف حرارت کے ان غسل خانوں کا اپنا ہی لطف ہے ۔
ایک تالاب باہر کھلی فضا میں بنا ہوا ہے ۔
جس  کے اوپر لکڑی کی چھت ہے ۔
سخت سردی یا برف باری میں چالیس درجے کے گرم پانی کے اس ٹب کا اپنا ہی مزہ ہے  ۔
کیا اپ کبھی اپنے شہر کے پول میں گئے ہیں ؟
اگر نہیں تو
ایک دفعہ جا کر دیکھیں ، مجھے یقین کی حد تک امید ہے کہ اپ لطف اندوز ہوں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر ضیاع صاحب کے اسلام کو کچھ دن اور مل جاتے تو  عربوں سے عشق اور دیسی پن سے حقارت اس نہج تک پہنچنے والی تھی کہ
کسی کو بھی ہند کی زمین سے تعلق بتاتے ہوئے بھی شرم محسوس ہونی تھی ۔
سارے آرائیں ، فلسطین کے علاقے اریحا  سے تعلق والے بتائے جانے تھے
اور سارے جٹ جدہ سے ، سارے ملک مکّہ سے
اور باقی سب ہاشمی ، قریشی ، عباسی ،اُموی ، بخاری ، سمرقندی ، گردیزی ، سبزواری، جیلانی، گیلانی ، مشہدی ، تبریزی ، فلسطینی ، عراقی ، ایرانی ، دُرانی وغیرہ وغیرہ بن کر ایران ، شام لبنان افغانستان سے تعلق جوڑ  کر اپنے شرمندہ ماضی سے جان چھڑاتے نظر آتے ۔
 لیکن خاور کو اپنے اباء پر اور اپنے خمیر کے پنجاب کی زمین سے اٹھنے پر کوئی شرمندگی نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا اللہ ہر دیسی کو اس کے اپنے دیس میں دیسی پولیس اور سرکاری اداروں کے شر سے محفوظ رکھنا ۔
اور پردسیووں کو ان کے  پردیس کے “پکے “ ویزے دلاتے رہنا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں ترا نشمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر

 اس شعر میں شاعر  مرد گوہستانی لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے
کہ
اسلام آباد کی طرف منہ نہیں کرنا
اسلام آباد کے قصر سلطانی  پاک فوج اور  ان کے بنائے ہوئے سیاستدانوں کی حکمرانی کے لئے ہیں
اپ لوگ وہیں رہو جہاں رہ رہے ہو ۔

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
گر سو برس بھی جیتے تو یہی انتظار ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر اپ کی کسی رائیٹرکی تحریر پر کوئی بندہ یہ تبصرہ کرئے کہ
پتہ نہیں کیا الٹا سیدھا لکھتے رہتے ہو ۔
تو ؟
ننانوے فیصد وہ بندہ “مذہبی “ ہو گا ۔
اس بندے نے فقرے میں  الٹے کے بعد سیدھا ، صرف رسماً لکھ دیا ہے ورنہ اس کو رائیٹر کا لکھا ہوا الٹا ہی نظر آ رہا ہوتا ہے  ۔
پتہ کیوں ؟
کیونکہ اس کو تعلیم ہی الٹی دی گئی ہے ، جبتک اس کو سر کے بل الٹا کر کے نہیں پڑہائیں گے اس کو سیدھا نظر ہی نہیں آ سکتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورین اور چینی لوگ جو کہ حرام حلال سے قطع نظر ہر گوشت کھا جاتے ہیں ۔
لیکن پاکستان میں وہ لوگ بھی احتیاط کرتے ہیں ۔
یہاں مردار بھی کھلا دیا جاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادبی ذوق اور مذہبی رویہ !۔
دو مختلف چیزیں ہیں ۔
ادبی ذوق نہ رکھنے والے بچے عموماً مذہبہ لوگوں ہے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ، اور معاشرتی کجیون کا باعث بنتے ہیں ۔
ایک ادبی ذوق ولا بچہ ، مذہبی بچے کو ساتھ لے کر چل سکتا ہے
لیکن مذہبی ذہن کا بچہ ادبی ذوق والے کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتا ۔
ادبی ذوق والا  مذہبی بچے کی سوچ اور روئے کو سمجھ سکتا ہے
لیکن مذہبی سوچ والے بچے کو ادبی ذوق والے کی سمجھ نہیں لگے گی ۔
ادبی ذوق والا بچہ کسی بھی معاشرت کی اچھی بری چیزوں کا تجزئی کر سکتا ہے
لیکن مذہبی ایسا نہیں کر سکتا۔
مذہبی بچہ ،ادبی ذوق والے کو کمراھ ، بے عقل ، بھٹکا ہوا ۔ بلکہ کافر تک کہہ سکتا ہے
لیکن ادبی ذوق والا ، مذہبی کو ایسا نہیں سمجھے گا ۔
ایک ادبی ذوق والا بندہ کسی بھی مذہبی سوچ کے بندے سے بہتر مسلمان ہو سکتا ہے ۔
یقین کریں کہ ادبی ذوق والے ہی بہتر معاشرت کی تعمیر کر سکتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک پنجابی مکالمہ
گاما: اچھو ڈنگر سے ، اوئے اے انڈا حلال ای ؟
اچھو : کیوں ؟ تیوں انڈا کھوان تو پہلوں ! ککڑی تے ککڑ دا نکاح نامہ وکھاواں ؟؟
گاما: اوئے بد بختا ، انڈا کچھو کومے دا تے نئیں سی ؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساڈے بزرگاں نے انگریزاں کولوں  زمیناں لئیاں ، اعزاز لئے ۔
اج  سارے لوکاں نو نظر آؤندا پیا اے کہ  علاقے وچ ساڈے توں طاقتور کوئی  وہ نئیں ۔
ساڈی اولاد وی سوہنی اے ، اج وی  سرکار دے کماں وچ سانوں پوچھیا جاندا اے  ۔ْ
اوئے اے  علاقے دی کمی لوگ ! اپنیاں کمینی عادتاں تو پچھے رہ گئے نے ۔
ذیلداد صاحب دا پوترا ، بابے سیٹھ نوں گلاں کردیا پیا سی  ۔
تہاڈے کمیاراں دیا گلاں ای نئیں مکدیاں ، جی ساڈے وڈے بڑئےسیانے سن ، بڑا کاروبار سی  ، سو سو کھوٹے تے خچر رکھے ہوئے سن ۔
گل سن بابا سیٹھا !! جے او سیانے ہوندے تے اج وہ تسی لوک کھوتے ہی نہ چلا رہے ہوندے ۔
بیوقوف سن اور تہاڈے وڈکے !!۔
وڈے وڈے گھر بنا کے  ویہڑے وچ سو سو کھوتا بن کے ، سار گھر لید نال بھریا ہوندا سی ۔ تہاڈیاں زنانیاں  لید نال بھریاں ہوندیاں سن ۔
کھوتے نوں “ نسریا” ویکھ ویکھ کے  ترسیاں ہوندیاں سن ۔
ساڈے ول ویکھ ، ساڈی بیبیاں دیاں سو  سو سال پرانیاں فوٹوان ویکھ ، شہزادیاں لگدیاں نیں ۔
میرا دادا اللہ بخشے ذیلداد صاحب ! دسدے ہوندے سن ، جدوں وہ انگریز لوکی ساڈے گھراں وچ پروہنے بن کے آؤندے سن ، ساڈی کوٹھی سے کول بنے کمہیاراں دے گھر ویکھ کے نک دے رومال رکھ لیندے ہوندے سن ۔
کھوتے دے ہینکن دی آواز دے کناں وچ انگلیان دے لیندے سن ۔
تہاڈے گھراں دے کولوں لنگدیاں ہویاں ، انگریزاں  دا دل نئیں سی کردا کہ تہانون کمیاراں نوں منہ وہ لان ۔
کمشنر صاحب جدوں وہ اؤندے سن ، کنے کنے دن ساڈے گھر رہندے سن ۔
ساڈے گھراں نال کنداں جڑیاں ہویا نے کمہاراں دیاں  ، تساں نہ انگریزی سکھی تے ناں ای انگریزاں نے تہانوں منہ لگایا ،۔
میرے سامنے نہ کریا کر گلاں کہ
ساڈے کمیاراں دے وڈکے بڑے سیانے سن ۔۔
بس جی چوہدری صاحب ، کی دساں   ، کھورئ ساڈے وڈکے سیانے سن کے بے عقل ،۔پر اک کم ایہناں دا مینوں بڑا  چنگا لگیا اے ۔
او کیڑا ؟ اوئے سیٹھا ؟
اپنیاں زنانیان نوں لید دے کم تے لائی رکھ کے انگریاں کولوں بچا لئیاں نے ، نئیں تے ساڈے منڈے وی نیلی اکھیان والے ہو جانے سن  ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے یہاں  رشتے خون کے بھی ہوتے ہیں اور خون چوسنے کے بھی، ۔
اور
خون جلانے کا خونخوار رشتہ ؟
میاں بیوی کا رشتہ ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں اگر جوان لڑکا گھر سے باہر رہے تو ؟
آوارہ !۔
اور اگر گھر پر ہی رہے تو ؟
نکما۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے ایک بڑے سیاسی لیڈر کا دھانسو بیان ۔ ہماری پارٹی میں کرپٹ لوگوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔
اندر کی بات ۔
ہاؤس فل ہو چکا ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڈھ پیر میں جو ہوا ہے یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا۔
 پاک  فضائیہ کی بیس پر اس حملے سے قبل بھی کراچی، کوئٹہ، کامرہ اور پشاور  کے ایئر بیس اور ایئرپورٹس کو نشانہ بنایاجا چکا ہے ۔
توکیوں نہ پاک فضائیہ اور چھاؤنیوں کے حفاظت کے لئے  “رینجر” کو بلا لیا جائے ؟
مولا خوش رکھے  عالم اسلام کی محافظ فوج کی حفاظت کا معاملہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں ایسے” مسلکی “ لوگوں کی بہتات ہے جو
یہ سمجھتے ہیں کہ "ہم " سفید کھوتے “ ہیں  جن پر کالی دھاریوں بن گئی ہیں ۔
اور دوسرے سارے مسالک کے لوگ  “ کالے کھوتے “ ہیں جنہوں نے سفید دہاریاں بنائی ہوئی ہیں ۔
بس دہاریوں کی بحث ہے ۔
دوسرے سارے مسالک والوں کی  دہاریاں سفید اور کھوتے  کالے ہیں ۔
اہل علم  ان کو “ زبیرا “ نہیں ! “کھوتا” ہی سمجھتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچاس ہزار کا قربانی کا جانور ؟
اتنے پیسوں میں تو  کسی غریب کی بچی کی شادی ہو سکتی تھی
ایسی باتیں کرنے والے لوگں کا مائینڈ سیٹ  مخصوص لوگوں نے سال ہا سال کی محنت سے بنایا ہے ۔
پاکستان میں کوئی بھی کام چاہے کوئی سیاستدان کرئے یا سوشل ورکر ، ماجا کرئے کہ گاما۔
دٹو کرئے کہ فتو اس پر کوئی ناں کوئی یہ کہہ کر
کہ
اس کی بجائے “وہ “ کام کیوں نہیں کیا ۔ کسی غریب کو روٹی کیوں نہیں کھلائی ،اگر روٹی ہی کھلا رہا ہو تو مسجد کو کیوں نہیں دئے ، مسجد کو دے رہا ہو تو اپنے رشتہ داروں کو کیوں نہیں دئے ، رشتہ داروں کو دے رہا ہو تو  اقرباء پروری کی تہمت کے ساتھ سڑک کیوں نہیں بنا رہا ، سڑک بنا رہا ہو تو ڈیم کیوں نہیں بنا رہا ، ڈیم بنادے تو کرپشن کر کے پیسے باہر لے گیا  ْ
اس ملک میں سوائے دفاع کے ہر خرچ فضول خرچی کے زمرے میں آتا ہے ۔
اقتصادی ترقی کے خواب دیکھے جا رہے ہیں ، اقتصادیات کا علم  ایک انڈر میٹرک بندے جتنا بھی نہیں ہے
خرچ کرنے سے  دولت کی حرکت ہوتی ہے جس سے دولت کے ثمرات نچلی سطح تک پہنچتے ہیں ۔
مغالطوں کے شکار یہ کم علم لوگ ، لیکن ہائے مجبوری کہ یہ میرے اپنے لوگ ہیں ۔
یا اللہ اینہاں نوں عقل دے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اپنے دل سے پوچھا!۔
چلتے چلتے یوں ہی رک جاتا ہوں میں ۔
بیٹھے بیٹھے یوں ہی کھو جاتا ہوں میں ۔
کیا یہ پیار ہے ؟
دل نے جوب دیا!۔
نئیں پاغلا یہ کمزوری ہے انرجی ڈرنک پیا کر ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دین ملاّ ؟ فساد فی سبیل للہ!۔
ان لوگوں کا مذہب ؟ نام ہی بحث مباحتوں ، مناظروں ، حجتوں اور جگتوں کا ہے ۔
یہ لوگ کبھی بھی  کسی نتیجے پر پہنچ کر  کسی بات پر متفق ہو کر معاشرت  کی تعمیر نہ تو کر سکے ہیں اور نہ کرسکیں گے ۔


دو لطیفے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موٹر سائیکل کا ٹائیر پنکچر ہو گیا ۔
وہ موٹر سائیکل کو دھکیل کر چلتے چلتے ایک “ پھوک سنٹر “ پر پہنچا تو ۔چھوٹا بھاگ کر آیا
جی سر ؟
پنکچر لگانا ہے !، میری تو اس موٹر سائیکل کو گھسیٹ گھسیٹ کر اج پھٹ گئی ہے ۔
سادہ دل اور بھولا بھالا “  چھوٹا “ کنفیوز ہو کر پوچھتا ہے
تو پہلے کس کو پنکچر لگانا ہے ؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بی بی جی کو بازار میں  ایک بہت بڑے ماہر امراض نسواں  نظر آگئے ۔
بی بی جی ان کے پاس جا کر پوچھتی ہیں
کیا اپ نے مجھے پہچانا ؟
نئیں بی بی جی ! میں خواتین کو ان کے چہرے سے  یاد نہیں رکھتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرم میں کرین گرنے اور منیٰ میں بھگڈر سے ہونی والی “اموات “ پر میرا کیا خیال ہے ؟
میرے خیال میں یہ قدرت کی طرف سے  مسلمان کہلوانے لوگوں کے لئے خاص طور پر اطلاع اور پیغام  ہے
کہ
اگر احتیاطی تدابیر میں کمی یا کوتاہی ہو گی تو ، مقام کتنا بھی مقدس ہو گا ، حادثہ ہو کر ہی رہے گا ۔

دوش نہ دیو ہواواں نوں ،سر توں اڈیاں تنبوو واں دا
کلے ٹھیک نئیں ٹھوکے خورے ساتھوں رسّے ٹہلے رہے

منگل، 13 اکتوبر، 2015

کرامتی مراثی

 مراثی کے مرتے ہی  منظر بدل جاتا ہے۔
موت کے فرشتے کرامتی مراثی کو
کرامت صاحب کرامت صاحب کہہ کر پکارنے لگتے ہیں
یه بگھی آ گئی ہے جی کرامت صاحب قبلہ !ـ
ادھر تشریف لائیں حضور کرامت صاحب !ـ
کرامتی مراثی کہ ٹک ٹک دیدم 
اور گھگی بندھی آواز میں کہتا ہے۔
 کہ
 جی کوئی غلطی لگ گئی ہے آپ کو فرشته صاحب !!۔
میں ہوں جی سدا کا کرامتی مراثی !ـ
کہیں یہ نہ ہو بعد میں بے عزتی کردیں میری ۔

سجی دھجی سواری میں بٹھا کر کرامتی کو  عدالت میں پیش کیاجاتا ہے
تو کرامتی سجدے میں گر جاتا ہے
 جی سچے بادشاھ صاحب اپ کا درشن هو گيا۔
 اب بے شک جہنم میں پھینک دیں  ساری زندگی کی کچلی  حیاتی کا کوئی گلہ نہیں  !ـ
ایک دفعه میں چوھدریوں کے گھوڑے پر چڑھ گیا تھا
اور اس پر بڑی لترول هوئی تھی
اپ کو بھی اگر کوئی غلطی لگ گئی  تو جی معاف کردیں میں کرامتی مراثی ہی ہوں  !ـ
کرامت   کہہ کر بلانے کی عزت ہی کافی ہے جی مجھے ۔
فرشته رضوان فائیل کھول کر پڑھنا شروع کرتا ہے  کہ جی
پیدائیشی نام کرامت علی، قوم مراثی ، ساری زندگی کسی کو دکھ دیا ناں دھوکہ
گناھ کوئی ناں بندوں نہیں،  خدمت ہی کرتے زیست گزار دی اس لیے کرامت صاحب کو جنت میں محل الاٹ کرنے کی سفارش کی جاتی ہے ـ
رضوان کی سارش قبول ہو جاتی ہے ۔
حکم جاری ہو جاتا ہے ۔
جنت میں محل اور جنت کی ساری نعمتوں   کرامت کو مہیا کرنے کا ۔
کرامتی کو لے کر پروٹوکول افسر ٹائیپ فرشتے محل میں جاتے ہیں اور کرامتی کو سارا محل دکھاتے ہیں که جی اب یہ آپ کا ہے
اور آپ اب جنت میں ہیں
یہاں اپ کی ہر خواہش پوری کی جائے گی !ـ
کرامتی نے محل کی ڈیوڑہی میں منجی ڈلوا لی اور کہنے لگے که جی مجھے یہی ٹھیک ہے
فرشتوں نے بہت کہا که جی یه سارا محل آپ کا ہے اور اب آپ کی ہر خواهش پوری ہو گی
مگر کرامتی کو یقین ہی نہیں آ رها تھا ـ
فرشتوں کی بار بار تکرار پر کہ یہاں ہر خواهش پوری ہو گی پر 
کرامتی جھجکتے ہوئے کہتا ہے۔

اچھا ؟ کیا آپ لوگ مجھے هر روز  تندور کی پکی دو روٹیاں اور کم شورے والی گاڑھی دال دے سکتے ہو؟؟
یه سن کر فرشتوں نے شرم سے سر جھکا لیا کہ 
جی اس بندے کی سوچ ہی اتنی ہے۔
 حاصل مطالعہ
تو ناداں چند کلیوں پہ قناعت کر گیا
ورنہ  گلشن میں علاج تنگی داماں بھی تھا۔

بندے کو سوچ بڑی رکھنے چاہئے
 بڑی سوچ والے لوگ ہی بڑے کام کرتے ہیں ۔


ہفتہ، 10 اکتوبر، 2015

گدھے


ایک دفعہ کا ذکر ہے ، پرانے زمانے کی بات ہے ، ایک بادشاھ تھا  ایک دن بادشاھ کا دل چاہا کہ  ملک کے دورے پر نکلے ، تو اس نے محکمہ موسمیات کے افسر سے پوچھا کہ آنے والے چند  دنوں میں موسم کیسا رہے گا ؟
محکمہ موسمیات کے بڑے افسر نے  حساب کتاب نکال کر بادشاھ کو بتایا کہ انے والے کئی دنوں تک بارش کا کوئی امکان نہیں ہے ۔
 اس لئے اپ مطمعن ہو کر  ملک کی سیر کو نکل سکتے ہیں ۔
بادشاھ اپنی ملکہ کو ساتھ لے کر دورے پر نکل جاتا ہے ،  دارالحکومت سے میلوں دور  ایک جگہ اس کی ایک کمہار سے ملاقات ہوتے ہے جو اپنےگدھے پر مال لادھے کہیں جا رہا ہوتا ہے ،
کمہا بادشاھ کو پہچان جاتا ہے اور بادشاھ کو بتاتا ہے کہ  جتنی جلدی ہو سکے واپس چلے جائیں ، اس علاقے میں بہت موسلادار بارش ہونے جا رہی ہے ۔
بادشاھ کمہار کو کہتا ہے کہ میرے موسمیات کے افسر نے مجھے بتایا ہے کہ بارش کا کوئی امکان نہیں ہے ، میرا افسر ایک تعلیم یافتہ  اور بہت ذہین بندہ ہے ، جس نے ملک کی اعلی درسگاہوں سے تعلیم حاصل کی ہے
اور میں اس کو بہت بڑی تنخواھ دیتا ہوں ۔
اس لئے میں ایک کمہار کی بجائے  اپنے افسر کی بات پر یقین رکھ کر سفر جاری رکھوں گا ۔
انہونی یہ ہوئی کہ    ایک یا دو پہر بعد ہی  بارش شروع ہو گئی  اور بارش بھی طوفانی بارش کہ جس میں بادشاھ اور ملکہ کا سارا سامان بھی بھیگ گیا ۔
بادشاھ وہیں سے واپس مڑا اور راج دھانی میں پہنچتے ہی محکمہ موسمیات کے افسر کو قتل کروا دیا
اور
بندے بھیج کر کمہار  کو دربار میں بلایا ،۔
دربار میں بلا کر بادشاھ نے کمہار کو محکمہ موسمیات کی نوکری کی پیش کش کی ۔
بادشاھ کی پیش کش  پر کمہار نے بادشاھ کو بتایا کہ  میرے پاس کوئی علم عقل نہیں ہے ، میں یہ نوکری کرنے کا اہل نہیں ہوں ۔
جہان تک بات ہے بارش کی پشین گوئی کی تو  ؟ وہ اس طرح ہے کہ  اس کا اندازہ میں گدھے کے کان دیکھ کر لگاتا ہوں
جب بھی گدھے کے کان مرجھائے ہوئے ہوتے ہیں اس بعد  بہت بارش ہوتی ہے ۔
یہ سن کر بادشاھ نے بجائے کمہار کے گدھے کو کلرک رکھ لیا ۔
بس اس زمانے سے یہ رواج پڑا ہوا ہے کہ حکومتی محکموں میں  گدھے ہی بھرتی کئے جاتے ہیں ۔
ماخوذ

Popular Posts