ہفتہ، 30 مئی، 2015

اہل دل لوگ


معذور بچوں کے لئے انگریزی ایک لفظ رائج ہے ۔
سپیشل چائلڈ
دو سال پہلے برطانیہ میں اس بات کی مہم چلی تھی کہ
ایسے بچوں کو پالنے والے والدین کو سپیشل پیرینٹس کہاجائے۔
کیونکہ
جس کرب اور مشقت سے ان والدین کاواسطہ ہے
اس کرب کو کوئی دل والا ہی محسوس کر سکتا ہے
یا پھر میرا رب ۔
ایسے والدین خاص طور پر والدہ  کے لئے تو ایسے بچے کی پرورش چوبیس گھنٹے کا کام ہوتا ہے  ۔
ایک معذور بیٹے کی ماں  ، جس کے بیٹے کا جسم مفلوج ہے اور ذہن بھی چند ماھ کے بچے سے زیادہ ترقی نہ کر سکا ،۔
اس کی ماں ایک دن بتا رہی تھی کہ “ حارث “ کی رات کو سوتے سوتے سانس رک جاتی ہے ۔ کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ رال اس کے حلق میں روکاوٹ بن کر سانس کو بند کر دیتی ہے ۔
اگر ایسے میں کوئی حارث کی مدد نہ کرئے تو حارث کی زندگی کا اختتام بھی ہو سکتا ہے  ۔
اس لئے جب بھی  حارث کی سانس رکتی ہے
رات کو جاگ کر میں اس کی گرن سیدہی کر کے ، جگا کے اس کی مدد کرتی ہوں ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوا کہ
رات کو میٹھی نیند سوئے ہوئے ، کیسے علم ہوتا ہے کہ
معذور بچے کی سانس رک گئی ہے ۔
جب کہ سانس رکنے سے کوئی شور بھی تو پیدا نہیں ہوتا ، معذور بچہ کوئی  پکار بھی نہیں کر سکتا
تو کیسے علم ہوتا ہے ؟
تو حارث کی ماں نے بتایا
ایک ماں کو اس بات کا علم ہو جاتا ہے
اور نامعلوم حس ہوتی ہے جو ایک ماں کو جگا کر دیتی ہے !!۔

جاپان میں ایسے بچوں کی تعلیم کا بھی انتظام ہوتا ہے
کیا تعلیم دیتے ہوں گے ؟
بس یہی کہ اپنے جسم کو کیسے بچانا ہے ۔ جو بچے بات کو سن کر ردعمل دیکھا سکتے ہیں ، ان کو معاشرے کے لئے کارآمد فرد بنانے کے لئے ایسا بنا دیا جاتا ہے کہ فیکٹریوں یا کہ ملوں میں کسی سادہ سے کام پر لگے رہیں اور کوئی چیز بنا بنا کر  کام کرتے رہیں ۔
دن رات معذور بچوں کی پرورش  ایسے والدین کی  زندگی کو انجوائے کرنے کی حس ہی مر  جاتی ہو گی  ۔
ان کو گیت سنگیت کا کیا لطف آتا ہو گا ؟
ان کو محفلوں میں بیٹھنے کا کیا موقع ملتا ہو گا ؟
ان کو کمائی کے کیا مواقع ہوں گے ؟
لیکن میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اسے والدین  مفلس کم ہی ہوتے ہیں ۔
اور ان کے دل بھی بڑے ہوتے ہیں ۔ صرف اپنے بچے کے لئے ہی نہیں بلکہ سب کے لئے  ۔
اپنے گھر میں اگائی ہوئی سبزیاں ، یا کہ فصل اٹھنے پر
معذور بچوں کے والدین کو ، میں عام لوگوں کی نسبت زیادہ فراخ دل پایا پے  ۔
پھر بھی اخر انسان ہیں  ، انسانی برداشت کی ایک حد ہوتی ہے  ، بچوں پر غصہ بھی آتا ہو گا
اپنی قسمت پر شکوے بھی پیدا ہوتے ہوں گے  ۔
 زندہ معاشروں میں جیسے کہ
جاپان میں ایسے والدین کا بوجھ بٹانے کے لیے کچھ تنظیمیں کام کرتی ہیں ۔
جو کہ چھٹی کے دن ایسے بچوں کو  ، ان کے والدین کی بجائے  پارکوں میں ، کھیل کے میدانوں میں
سمندر کی سیر یا کہ جھولے جھولنے کے لئے لے کر جاتے ہیں ۔
تاکہ سپیشل پیرینٹس  ، جو کہ چوبیس گھنٹے ان بچوں کے لئے ہلکان ہو  چکے ہوتے ہیں ان کو بھی ایک دن چھٹی مل جائے اور کہیں جا سکیں یا کہ ناں
کم از کم گھر میں کچھ گھنٹے بے فکر ہو کر سو تو سکیں  ۔
مزے کی بات یہ کہ ان تنظموں  کو بھی اس سے کوئی کمائی نہیں ہے  ۔
یہاں کام کرنے والے لوگ  وہ ہیں جو ریٹائر ہو چکے ہیں یا پھر اتنے دولت مند کہ کمائی سے زیادہ کچھ کرنے کے جذبے سے سرشار ہیں ۔
میں ایسے لوگوں کو اہل دل کہوں گا
کہ جو اپنے اپ ( خود غرضی) سے بہت اوپر اٹھ چکے ہوتے ہیں اور اب دوسروں  کی مدد کر کے لطف لیتے ہیں ۔

میں یہاں اپنے بچوں کے ساتھ پارک میں ہوں
جہاں معذور بچوں کو لے کر کچھ “دل والے” لوگ بھی ان کو سیر کروانے آئے ہوئے ہیں ۔
ایک ایک بچے کے ساتھ ایک نفر ہے
ایک سیکنڈ بھی نظر ہٹانے کی مہلت نہیں ہے۔
کچھ بچے اب بچے نہیں رہے ، ایک اٹھارہ سال کا لڑکا ، جو کہ ذہنی طور پر تو ایک بچہ ہے لیکن جسمانی طور پر ایک بھر پور مرد ، اگر یہ بچہ ضد کر جائے تو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا اس لئے ایسے بچے کے ساتھ تین یا چار لوگ تھے اور ایسے چوکنا ہو کر چل رہے تھے
 جیسے کسی وی آئی پی  کے ساتھ چوکنا گارڈ چلتے ہیں ۔
 وی آئی پی کے گارڈ تو اس خطرے سے چوکنا  چلتے ہیں کہ کوئی وی آئی ہی پر حملہ نہ کر دے
لیکن یہ لوگ اس لئے ایکٹو ہو کر چل رہے تھے کہ یہ بچہ کسی پر حملہ نہ کر دے ۔
لیکن دل ہے کہ اس بچے کو بھی انجوائے کروانا چاہتا ہے
اور اس کو پارک کی سیر پر لے کر آئے ہوئے ہیں  ۔

ایسے میں ایک دس سالہ معذور بچہ اپنے پچاس سالہ اٹینڈینٹ کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیتا ہے ۔
میں دیکھ رہا تھا
اس اٹنڈنٹ نے بچے کو پکڑ کر اس کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر کئی دفعہ یہ کہا
مارنے سے درد ہوتا ہے ، کیا میں مار کر دیکھاؤں ؟
اور بچہ ہے کہ انکھوں میں انکھیں ڈال کر  دیکھ رہا ہے ۔
اٹینڈنٹ پھر کہتا ہے ، مارنے سے درد ہوتا ہے ، کیا میں مار کر دیکھاؤں ؟
اس فقرے کی تکرار نے بچے کو سر جھکانے پر مجبور کر دیا ۔
جاپانی ایک عظیم قوم ہیں ، ان کی اس عظمت کی بنیاد ان کا اخلاق اور اصول ہیں ۔
کیا اپ کے ارد گرد کوئی اسپیشل پیرینٹس ہیں ؟
کیا اپ نے کبھی ان کے کسی کام آنے کا سوچا ہے ، احساس کیا ہے ۔
یاد رہے کسی کے کام آنا اس کو پیسے دینا نہیں ہوتا ۔
خود دار لوگ بھیک نہیں لیا کرتے ، لیکن درد بھرے دل سے ان کے بچے کو کبھی کبھی اپنا بچہ سمجھ کر ،اس بچے کے ساتھ کھیل لینے سے  والدین کے دل ضرور کھل اٹھیں گے ۔

جمعہ، 29 مئی، 2015

دوہزار پندرہ مئی جون کے فیس بک کے چٹکلے


اخرت میں بخشش ، تو بڑی دور کی بات ہے ۔
اپنے  *مذہبی * صاحب کا بس چلے تو؟
کسی جاپانی کو اوکشن کی ممبر شپ تک  کی “اجازت “ نہ  دیں ۔
(^.^)
جس طرح اپ ،اپنے مذہبی سکالر کی عقیدت اور علمی قابلیت کے معترف ہیں ۔
اسی طرح ، قادیانی ، مرزا غلام احمد کے ، مولوی طاہر کے قادری لوگ اپنے اپنے بڑے کے علم کے معترف ہیں ۔
بریلوی ، دیو بندی ، اہل حدہث ، اہل تشیع ، بلکہ ہندو ، سکھ ، کیتھولک  لوگوں کا بھی  یہی حال ہے ۔
اس لئے اگر اپ کو قران کی باتیں کرتا خاور  عجیب لگتا ہے تو ؟ یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے ، بلکہ ! تکنیکی طور پر ایسا ہی ہونا چاہئے۔
کیونکہ
 اپنا اپنا کمپیوٹر سسٹم ہے جس میں دوسرے سسٹم کا فائل فارمیٹ   چلانے پر ایرر آ جاتا ہے ۔
(^.^) 😀

بیوی ،اچھو سے پوچھتی ہے ، سونے  کی چین کب لے کر دو گے ؟
اچھو .، جب مجھے چین سے سونے دو گی !!!۔
(^.^) 😀

ایک پارٹی میں  ، گانے چل رہے تھے ، ڈی جے نے نیا گانا لگانے سے پہلے کہا ۔
ایک ڈانس کرنے والا میوزک لگا رہا ہوں ، جس جس کو ڈانس نہیں کرنا ،وہ جا کر اپنی  بھینس چرائے !!۔
گامے نے یہ سن کر اپنی بیوی کو کہا ۔ چل بھلئے لوکے  میں تمہیں کھانا کھلاؤں  ۔
(^.^) 😏🐃

دماغ اگر پرنٹر ہوتا تو ؟ میں اپنے خیالات کو  تصاویر میں مجسم  کر لیتا۔
دل  میں اگر بلیو ٹوتھ ہوتا تو دل  کی دل سے راہیں نکال لیتا ۔
سکھ اگر  میموری سٹک ہوتے تو ؟ میں ان کا بیک اپ لے لیتا ۔
ہائے کاش کہ زندگی  ایپل کے کمپیوٹروں کی طرح  ہسٹری کا اپشن رکھتی  ، تو میں اپنے بچپن کی فائیلیں  ہی کھولے رکھتا  ۔
لیکن
یہ سب ممکن نہیں ہے اس لئے میں زندگی کو سچائی سے گزارنے کے مشن پر لگا ہوا ہوں ۔
اس لئے میرے خیالات  مجسم نہ بھی ہو بد بو نہیں دیتے ۔
میرا دل اپنے جیسوں کے دلوں سے راہ نکال ہی لیتا ہے
اور سکھ میری زندگی میں دکھوں پر چھائے ہوئے سے ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔
اور بچپن ؟ 
چھڈو پراں ، ساری عیاشیاں تو فطرت مہیا ہی نہیں کرتی ۔
(^.^) 🐎

میں ایسے بندے کو جانتا ہوں  ، جس نے ایک چھوٹا سا ویلڈنگ پلانٹ سائکل کے پیچھے رکھا ہوا ہوتا تھا
 اور گاؤں گاؤں گھوم کر آواز لگاتا تھا
ٹوٹی ہوئی چیزیں ویلڈ کرا لو !!!۔
جس گھر میں کام نکلتا تھا ، وہ بندہ اسی گھر کی بجلی لے کر  ، فی راڈ کے پیسے چارج کرتا تھا،۔
اور اپنے گھر کو چلا رہاتھا
حاصل مطالعہ
محنتی لوگوں کے پاس بے روزگاری کے بہانے نہیں ہوا کرتے ۔
(^.^) 🐜

آئی لوّو یو ! آئی لوّو یو سو مچ!!!۔
یہ کہنا چاہتا تھا
رانجھا ، ہیر سلیٹی کو
لیکن
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔۔
بارہ سال بھینسیں چراتے گزر گئے ، ہیر کو کھیڑے لے گئے ۔
رانجھے کو “ انگریزی “ کا یہ  فقرہ  کہنا نہ آیا !!!۔
(^.^) 👿


پھندو فقیر کہا کرتا تھا
خاور پائی ، رب نے یہ انگلیوں کے درمیان جو گیپ رکھا ہے ناں اس میں  قدرت کی بڑی  رمز اور حکمت پوشیدہ ہے ۔
اگر کوئی پوچھ لیتا تھا کہ اخر وہ رمز یا حکمت ہے کیا ؟
تو!۔
پھندو بتایا کرتا تھا ، حکمت یہ ہے کہ
کسی دن
کوئی
بندہ پھندو کے نزدیک آئے اور
چرس بھرا سگریٹ دے کر کہہ سکے کہ
لے پھندو یار سوٹا لاء ۔
(^.^)

گامے کے گھر پر پولیس کی ریڈ ہو گئی ، گامے کو پکڑ کر پولیس نے صحن میں بٹھا لیا ۔
اوئے گامیا! پولیس کو اطلاع ملی ہے کہ تم نے اپنے گھر میں ایک خطرناک دہشت گرد کو چھپا رکھا ہے ۔
گاما: تھانیدار صاحب ! اطلاع تو اک دم صحیح اور پکی ہے
لیکن
کل سے وہ اپنے میکے گئی ہوئی ہے ۔
(^.^)

گامے کی سالگرہ پر اس کی بیوی پوچھتی ہے
اجی اپ کے برتھ ڈے پر گفٹ دینا چاہتی ہوں ، آپ کو کیا چاہئے؟
گاما یہ سن کر بہت خوش ہوا
اور کہنے لگا
نئیں ، بھلئے لوکے  چیز کوئی نہیں چاہئے ،
بس تم مجھے پیار کرو، مجھے عزت دو، اور میرا کہنا مانو!! بس یہی کافی ہے ۔
بیوی کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی !!۔
نئیں ! میں تو گفٹ ہی دوں گی !!!!۔
(^.^)

ذاتی  مفادات اور مالی فوائد کے لئے ، جماعت اسلامی کا نام لینے والے لوگ !۔
یہاں جاپان میں اپنی “ خامیاں “ چھپانے کے لئے تین اوزار استعمال کرتے ہیں ۔
ایک : مذہب
دو : داڑھی
تین: محراب ( ماتھے والا!۔
جو زیادہ ہی زہریلے ہیں وہ چوتھا ہتھیار استعمال کرتے ہیں ۔
خود کو عربی نسل کا ( سید) بنا کر پیش  کرتے ہیں ۔
(^.^) 🐭

جج: تمہارا نام کیا ہے ؟
ملزم: غلام ، گاما حضور ، گاما!!۔
جج: تم پر الزام ہے کہ تم نے سال ہا سال سے اپنی بیوی کو ڈرا کر ، دھمکا کر ، دبا کر،  اس کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا ہے ۔
گاما : گگیاتے ہوئے ، حضور ، وہ ۔ ۔ ۔!۔
جج گامے کی بات کاٹتے ہوئے ، صفائی کی ضرورت نہیں ہے ،
طریقہ بتاؤ طریقہ؟؟
(^.^)

پاگل خانے کا ڈاکٹر ایک پاگل سے پوچھتا ہے ، کیسے ہو ؟
پاگل : میں نے پانچ سو صفحوں کی ایک کتاب لکھی ہے
ڈاکٹر : اچھا کیا لکھا ہے ؟
لکھا ہے کہ میں کمائی کر کے اپنے گھر کی غربت مٹانے کے لئے جاپان آیا ، میں نےاپنے گھر کی  غریبی مٹائی ، جاپان کی نیشنیلٹی لے  لی ، اور  صحافتی کارنامے کرنے لگا ۔
ڈاکٹر ، یہ تو ایک صفحے کی کہانی ہے باقی کیا لکھا ہے ؟
باقی کے صفحات میں کیا لکھا ہے ؟؟
پاگل :  باقی کے صفحات میں ، میں یہہ ، میں وہ ، وہ برا ، میں اچھا  کی تکرار ہے ۔
ڈاکٹر: اس کتاب کو پڑھے گا کون؟
پاگل : چھپوا کر بانٹتا رہوں گا ، کوئی نہ کوئی میرے جیسا ، پڑھ ہی لے گا!!!۔
(^.^)

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
گر سو برس بھی جیتے  یہی انتظار ہوتا
،،،،،،،،،،
اچھو ڈنگ اس شعر کی تشریح کر رہا تھا
کہ
شاعر کا کوئی یار بہت مارلدار اور لاولد  ہے ۔
جس کے انتقال فرما جانے پر اس کی جائیداد اور مال شاعر کو مل جانا ہے
لیکن وہ یار بہت صحت مند ہے اور  اس کے وصال کی خبر  انے کی کوئی امید نہیں ہے
اس بات سے مایوس شاعر کے دل کا دکھ زبان پر  آگیا ہے کہ
گر سو برس بھی انتظار کریں گے تو  انتظار ہی کرتے رہیں گے ۔
(^.^)

کسی  گانؤں ( اج سے گاؤں کو ایسے ہی لکھا جائے گا)  میں  بجلی انے والی تھی ۔
اس گانؤں کے لوگ بہت خوش تھے  ، خوشی سے ناچ گا رہے تھے
ان میں کتا بھی تھا جو کہ زیادہ ہی خوشی کا اظہار کر رہا تھا
کسی نے پوچھا ، تمہیں کیا کہ بجلی آئے نہ آئے ؟
تم کیوں خوش ہو ؟
پگلے ! جب بجلی آئے گی تو گانؤں میں کھنبے بھی تو لگیں گے ناں ؟؟؟
(^.^)

ایک عورت نے نماز کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور فوراً ہی نیچے کر لئے ۔
اس کا خاوند دیکھ رہا تھا۔
خاوند نے پوچھا دعا کیوں نہیں مانگی ؟
بیوی نے کہا: میں یہ دعا مانگنے لگی تھی کہ
اللہ اپ کی سب مشکلات دور کر دے
لیکن پھر مجھے ڈر لگا کہ اس دعا سے کہیں مجھے ہی کچھ نہ ہو جائے !!!۔
(^.^)

عجب دستور  زباں بندی ہے تیری محفل میں
کہ یہاں بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
۔
 خلاصے ، ٹیٹ پیپر اور گیس پیپر  ، اپ کو امتحان تو پاس کراوا دیتے ہیں  ، جیسے بوٹی اور نقل
لیکن اگر
تعلیم حاصل کرنی ہے تو نصاب کی کتابوں کا علم حاصل کرنا ہوتا ہے  ۔
لکھنے والوں کی باتیں ، بھی خلاصے ، ٹیسٹ پیر اور گیس پیپر ہی ہوتے ہیں ۔
اور سنی ہوی تقریریں ؟ ایسے ہی ہیں جیسے بوٹیاں  اور چلاکیاں!!۔
اگر ، “ تعلیم” حاصل کرنی ہے تو ؟ نصاب کی کتاب  اللہ کا کلام ہے  ۔
(^.^)

اس  کے والد صاحب کی طبعت خراب رہتی تھی ۔
وہ اپنے والد صاحب کو لے کر ڈاکٹر کے پاس گیا ۔
ڈاکٹر صاحب نے  “ اس “ کے والد کو دیکھ کہا ۔
اپ کے والد صاحب کے کچھ “ٹیسٹ “ کروانے ہوں  ۔
یہ سن کا “ اس “ کا تراھ نکل
اور ڈاکٹر صاحب کی منت کرتے ہوئے کہنے لگا
ڈاکٹر صاحب ، ابا جی کی عمر زیادہ ہے
ان سے ٹیسٹ نہ کروائیں ، “ ون ڈے “ یا “ ٹونٹی ٹونٹی “ سے کام چلا لیں ۔
 (^.^)

جاپان میں اس پرندے کو گرمیوں کا پرندہ سمجھا جاتا ہے، جسے “سوبا مے” کہتے ہیں ۔ اور پاکستان میں اس کو سردیوں کا پرندہ ، اور اس کو ابابیل کے نام سے پکارتے ہیں  !!۔
جاپان میں یہ پرندہ انڈے بچے جننے کے لئے آتا ہے ،۔ آکست اور ستمبر میں بہت نظر آتا ہے ۔
جگہ جگہ اس پرندے کے گھونسلے نظر اتے ہیں ، کئی دفعہ تو گھروں کی بیٹھک یا کہ لوگوں کی روز مرھ کی زندگی میں روکاوٹ سی بھی پیدا ہوجاتی ہے  ۔
لیکن جاپانی لوگ  ، فطری طور پر  بچوں کا تحفظ کرنے والے ہوتے ہیں ۔
اس لئے  چند دن کی بات ہے کا کہہ کر  ابابیل کے انڈے بچوں  کی پرورش اور بقا میں کوئی روکاوٹ نہیں ڈالتے ۔
جاپانی لوگ اپنے بچوں کو  “جاپان “ ہونے کا یقین رکھتے ہیں ۔
اس لئے ہر فرد ہر کسی کے بچے کے تحفظ کا خیال رکھتا ہے ۔
اسی لئے یہاں سب لوگ محفوظ ہیں  ۔
حتیٰ کہ غیر محفوظ ممالک کے پناھ گزین لوگ  بشمول پاکستانی  بھی خود کو یہاں محفوظ خیال کرتے ہیں ۔
(^.^)

مغربی دنیا میں لوگ
 شادی
 پر خوشیاں مناتے ہیں ۔
پاکستان میں شادی  پر؟
پھوپیاں اور چاچیاں  مناتے ہیں  ۔
(^.^) 🙏🙏

مجھے دوسروں  کے اندر کے شیطان  پر حملے کرنے کا کوئی شوق نہیں  ۔
میں اپنے اندر کے شیطان کو کچلنے میں مصروف ہوں ۔
لیکن جب کس کا شیطان میرے مفادات یا عزت نفس پر حملہ کرتا ہے تو ؟
میں  شیطانی کرنے والے کے شیطان  کو آئینہ ضرور دیکھاتا ہوں ۔
شیطان  کہیں کے  ۔
(^.^)

جھگڑالو بیویوں سے نپٹنے کے لئے
 سیانے خاوندوں نے کچھ اصول بنا رکھے ہیں  ۔
اور وقت پڑنے پر یہ سب اصول فیل ہو جاتے ہیں  ۔
(^.^)

خوش قسمتی مٹھی میں بند ریت کی مانند ہوتی ہے ،
کوشش کے باوجود کھسک  کر نکل جاتی ہے ۔
یاں یہی ریت  دعا کی طرح پھلائے  ہاتھوں پر ٹکی رہتی ہے  ۔
(^.^)


برے دن سدا نئیں رہندے ،
برے دن  تہانوں ، تجربہ دے کے ، تے تہاڈی زندگی دی کتاب تے دستخط کر کے ٹر جاندے نیں  ۔
مولا خوش رکھے ،
(^.^)

میری زندگی میں شامل واحد جھوٹ !
یہ جھوٹ  جو کہ میں خود  سے بولتا ہوں
اور اکثر بولتا ہوں ۔
وہ ہے یہ سوچ
کہ
بعد میں لکھ لوں گا  ، کیونکہ مجھے یہ بات یاد رہے گی  ۔
(^.^)

لوکی تے  بڑے ای لج پاڑ نیں  ۔
اٹھے پہر حسد تے شرارت تے تلّے ہوندے نئیں  ۔
میرا رب ! بڑ لجپال اے ،۔
ایس دے وچ کوئی شک ای نئیں
ایسے لئی تے میں بچیا ہویا واں ۔
(^.^)

کوئیز محفل میں سوال تھا ، وہ کون سی چیز ہے جو سخت سردی میں بھی گرم رہتی ہے ؟
پاڈے مغل نے ہاتھ لمبا کر کے اٹھا دیا ۔
اینکر نے مائک پاڈے مغل کے سامنے کر دیا ۔
مغل کا جواب تھا  : گرم مصالحہ!!!۔
اینگر نے کہا ، ہاں ایک طرح سے  تمہارا جواب بھی درست ہی ہے ۔
مغلپاڈے نے پانچ فٹے قد کی ایڑہیاں اٹھا کر اور توند سے پچکے ہوئے سینے کو تان کر کہا
میں تو جینئس ہوں ، ویسے ہی مجھے غرور کرنے کی عادت نہیں ہے  ۔

ہفتہ، 16 مئی، 2015

پھر دوسری دفعہ کا ذکر ہے

دوسری دفعہ کا ذکر
کہ
خان ، مغل اور سید نامی بندوں  نے جسم کی فضول چربی  سے تنگ جس سے ان کے جسم ڈھلکے ہوئے تھے  گامے کو کہا کہ ہم کو بھی  کبھی ہائیکنگ  پر لے کر چلو  ، ہم بھی شائد تمہاری طرح  نائس باڈی  نظر آنے لگیں ۔
گاما ان سب کو لے کر پہاڑوں پر ہائکنگ کے لئے  پہنچ گیا ۔
فارمی مرغیاں کھا کھا کر  بیماریوں سے ہلکان ،  تینوں صالحین کی سہولت کا خیال کرتے ہوئے  گامے نے پہاڑ بھی  اسان سا چنا تھا کہ ایک دن میں  پہاڑ کر سر کرکے رات گھر پر گزاریں گے ۔
پہاڑ پر چلتے چلتے  ایک چھوٹا سا بادل بارش برساتا گزرا تو سب صالحین نے نزدیکی کھوہ میں پناھ لی ۔
لیکن بد قسمتی کہ زلزلے کے جھٹکے بھی اسی وقت انے تھے کہ ایک پتھر  لڑھک کر کھوہ کے منہ پر آ ٹکا اور باہر نکلنے کا راستہ بند ہو گیا  ۔
خود کو تنگ جگہ پر مقید پا کر صالحین کے  رنگ فق ہو گئے  ، اور لگے واویلا کرنے ، گاما ان سب کا منہ دیکھ رہا تھا ۔
سید نامی  بندے کو حکایت صالحین کی وہ کہانی یاد آ گئی جس میں ان ہی کی طرح کچھ لوگ غار میں پھنس گئے تھے اور انہوں نے  اپنی اپنی زندگی کی نیکیاں خدا کو جتلا جتلا کر غار کے منہ پر اٹکا ہوا پتھر سرکا لیا تھا ۔
سب سے پہلے مغل نے اپنی زندگی کی نیکیاں جتلانی شروع کیں
کہ کس طرح اس نے مسجد کی خدمت  کر کر کے  کیا کیا نیکیاں کی ہیں
لیکن پتھر زرا بھر بھی نہ سرکا !!،۔
اس کے بعد خان نے اپنی نیکیاں جتلانی شروع کیں کہ کس طرح اس نے جرگوں میں  مظلوموں کو صبر کی تلقین  اور ظالموں کو درگزر کے واعظ کئے تھے  ۔
لیکن پتھر پھر بھی ذرا بھر نہ سرکا ۔
اس کے بعد سید صاحب نے اپنے سید ہونے کی  مسجد کے متولی ہونی کی اور بھیک مانگ مانگ کر مسجد پر لگانے کی نیکیاں بڑے رقت بھرے انداز میں جتلائیں ۔
لیکن پتھر پھر بھی نہ سرکا ۔
ان سب کی یہ حرکات دیکھتا ہوا گاما ، گویا ہوا
اوئے منافقو !!۔
خود سے بھی جھوٹ بولتے ہو ، اور خدا سے بھی جھوٹ بولتے ہو ،؟
اوئے منافقو ، میں بھی تو تم لوگوں کو دیکھتا رہتا ہوں ۔ بھیک مانگتے ہو ، سود کھاتے ہو ، باعزت لوگوں کی عزت اچھالتے ہو ،۔
اور پھر کہتے ہو کہ  کیونکہ جس کا باپ بڑا کاروباری ہے وہ معافی نہیں مانگے گا ۔
بد بختو !۔
جس پر سب صالحین نے یک آواز کہا کہ اچھا تو تم بتاؤ اپنی نیکیاں
کہ ان سے شائد   پتھر  سرک جائے !!۔
ان کی یہ بات سن کر
گامے نے  جیب سے جدید ترین ماڈل کا آئی فون نکالا اور ریکسیو والوں کو فون کیا کہ میرے فون کو ٹریس کر کے میری مدد کو پہنچو
میں یہان کھوہ میں پھنس گیا ہوں ۔
اور تھیلے سے کافی کا ٹین نکالا اور کھول کر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر چسکیاں لینے لگا اور گنگنانے لگا ۔
ہیر آکھدی جوگیا ، جھوٹ بولیں
وے کون وچھڑے یار مالاوندا ای !!!۔

جمعہ، 15 مئی، 2015

چینی زبان میں الفاظ کی کمی

چین ! جہاں پچھلی کتنی نسلوں سے ایک بچہ پیدا کرنے کی پابندی تھی ، شائد اب بھی ہے ۔
وہاں ، کئی دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ ایک مسئلہ زبان میں زخیرہ الفاظ کی کمی کا واقع ہوا ہے  ۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ ابادی کی کمی سے زخیرہ الفاظ کی کمی کیا تعلق ؟
معاملہ اس طرح ہوا ہے کہ
ایک بچہ پیدا کرنے کی پابندی کی وجہ سے شہر کے شہر گانؤں  کے گانؤں  ایسے  بن گئے کہ ہر گھر میں ایک ایک بچی یا بچہ  تھا ۔
جب یہ بچہ اور بچی جوان ہوئے تو ان کی شادیاں بھی ہو گئیں ،۔
شادی کے بعد  عورت کو ملے ایک ساس سسر  اور خاوند کو بھی ملے ساس سسر  !۔
لیکن بیوی کو ، نند ، دیورانی ،جیٹھانی ، یا جیٹھ ، دیور  ، نام کے رشتوں کا علم ہی نہیں ہے کہ اس بیچاری کے ساتھ ساتھ اس کی ساری سہلیاں بھی   ان سبھی رشتوں سے محروم ہیں ۔
خاوند کو  سانڈو   ، نامی رشتے کا تصور ہی نہیں ہے کہ  اس کے اردگرد اس کے کسی بھی دوست کا سانڈو  ( ہم زلف)  ہے ہی نہیں ۔
ان جوڑے کی جو اولاد ہوئی  ان کو ، ماموں ، ممانی ، خالہ ، خالو ، چاچا ، چاچی  ،  تایا ،  تائی  نامی رشتوں کا ادراک ہی نہیں ہے  ۔
بہن بھائی ، بھائی بہن  نامی رشتے  تو ناپید ہوئے ہی تھی کئی اور رشتے بھی ناپید ہو گئے ۔
چینی زبان جو کہ ایک وسیع زبان ہے  رشتوں کے معاملے سکڑتی چلی گئی ۔ کتابوں میں اگر ان رشتوں کا کہانیوں میں قصوں میں  کہیں  ذکر بھی ہو تو
کیا ان قارین کا تصور ان کو ان رشتوں کے ہونے کا ادراک دے گا ؟
نہیں !!۔
اور انے والے چینی زبان کے ادب میں ان رشتوں کا ذکر بھی نہیں ہو گا کیوں کہ  پچھلی جار دہایوں میں پرورش پانے والے  چینوں نے یہ رشتے نہ دیکھے ہیں اور نہ محسوس کئے ہیں  ۔
اس لئے ان کے لکھنے والے بھی وہی لکھیں گے جو انہوں نے دیکھا ہے ۔
الفاظ کی کمی کا احساس اگر ایک دو صدی بعد پیدا  بھی ہوا تو ، ہو سکتا ہے کہ اس زمانے کا چینی یہ سوچے کہ چینی زبان رشتوں کے معاملے میں ایک غریب زبان ہے
اور اس کو ان رشتوں کے نام لینے کے لئے دوسری زبانوں کا محتاج ہونا پڑے  ۔

Popular Posts