اتوار، 22 فروری، 2015

چودہری لوگوں کے معاملات


شہر کی غلّہ منڈی میں  ، چودھری ظفر ،آڑھتی سے  گندم کی قیمت طے کرنے آیا ہوا تھا ، آڑھتی نے چائے منگوا لی ،چائے کی چسکیاں لے رہا تھا کہ اس کے علاقے کے دو اور زمین دار بھی وہیں پہنچ گئے ۔
غلہ منڈی میں آڑتھی کی دوکان بھی دیہاتی زمین داروں کے لئے ایک قسم کا  چوپال ہی ہوتا ہے ،۔
جہاں چایے پانی ، روٹی اور رقم  بھی مل جاتی ہے ۔
بات چل نکلی کماد کی فصل کے متعلق!۔
اس  ، سال تیسرے ضلع کے چوہدریوں نے نئی نئی شوگر مل لگائی تھی ،  چوہدریوں نے اعلان کیا تھا کہ   دوسری کسی مل کے نواح کے  زمین دار اگر کماد ان کی مل پر لائیں گے تو ان کو کماد کی دوگنی قیمت ادا کریں گے ۔
ٹریکٹر ٹرالی کا کرایہ تو کنڈے سے اترتے ہی  کماد اتارنے سے پہلے ادا کر دیتے تھے ۔
اس سال گنے کی فصل بہت اچھی اٹھی  تھی جس سے کہ سارا علاقہ واقف تھا ۔
چوہدر ظفر کی فصل کے چرچے بہت دور تک گئے تھے اور اس نے اپنی ساری فصل تیسرے ضلعے کے چوہدریوں کی مل پر  بیچی تھی ۔
اس لئے علاقے میں اس بات کا تاثر پایا جاتا تھا کہ اس سال چودھری ظفر نے بہت کمائی کی ہے ۔
آڑھتی کی دوکان پر علاقے کے دوسرے زمین داروں نے جب رشک بھرے انداز میں  ، اس سال فصل کے معاملے میں چوہدری ظفر کی فصل کو سلاہا تو ؟
چوہدری گویا ہوا کہ یارو ! میں ایک طرف تو بہت خوش قسمت نکلا کہ میری گنے کی فصل  اڑوس پڑوس سے بہتر ہو ئی لیکن ایک معاملے میں معاملے میں بدقسمتی کہ میں مرتے مرتے بچا ہوں ۔
سب کے کان کھڑے ہو گئے ۔
باؤ کمیار ، آڑھتی نے  نے تاسف سے کہا ، اللہ خیر کرئے چودھری کیا ہوا تھا؟
ہوا یہ تھا کہ
چودھری گویا ہوا  کہ ، جب میں کماد کی رقم کے کر مل سے نکلا تو  کوئی چار کلو میٹر بعد ہی ڈاکوؤں نے میری کار روک لی ، کلانشکوف کی خوفناک نالیوں کے منہ میری طرف تھے ، درد کی ایک لہر ریڑھ کی ہڈی میں سرایت کر گئی ۔
ابھی خدا کی دی ہوئی زندگی باقی تھی کہ ڈاکو لوگوں نے صرف رقم چھین کر مجھے جانے دیا ۔
ایک کروڑ سے زیادہ کی رقم تھی ، کلاشنکوف کے خوفناک منہ دور ہوتے ہیں ، کچھ اوساں بحال ہوئے تو احساس ہوا کہ بہت بڑی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھا ہوں ۔
اس وقت تھ نزدیکی ڈیرے سے کچھ کسان بھی آ چکے تھے کہ ویران جگہ کار کھڑی کئے یہ بندہ کیا کر رہا ہے ۔
کسی نے پولیس میں جانے کا مشورہ دیا ، شوگر مل والے چوہدری ،ان دنوں  ہیں ! ۔ اپ سب کو تو پتہ ہی ہے اور انہوں نے اپنے علاقے میں پولیس چوکیوں کا بھی جال بچھا رکھا ہے  ۔
میں نے جب نزدیکی چوکی پر جا کر رپورٹ لکھنے یا کہ ڈاکؤں کا پیچھا کرنے کا کہا تو؟
حوالار منشی نے مجھے مشورہ دیا کہ رہورٹ وغیرہ لکھنے بھی کچھ نہیں ہو گا ، پولیس کے پاس بھی کو اللہ دین چراغ نہیں ہے کہ ڈاکوؤں کا پتہ چلا لے ۔
تم اس طرح کرو کہ بڑے چوہدریوں کے ڈیرے چلے جاؤ ، ہو سکتا ہے کہ ان کے تعلقات سے  وہ ڈاکو لوگوں سے تمہاری رقم واپس دلوا دیں ۔
بات میرے دل کو لگی ۔
میں وہاں سے سیدھا شہر میں چوہدریوں کے ڈیرے پر پہچ گیا خوش قسمتی سے بڑے چوہدری صاحب ڈیرے پر ہی تھے ۔
ڈیرے پر لوگوں  کی آمد رفت سے بڑی رونق لگی ہوئی تھی۔
چوہدری صاحب بڑے مصروفتھے لیکن  پھر بھی
میری شکل دیکھتے ہیں چوہدری صاحب نے اپنی روایتی مہمان داری  نبھاتے ہوئے نوکو کو آواز دی اور “ روٹی شوٹی” کا انتظام کر ْ۔
روٹی کہاں حلق سے اترنی تھی اور ناں اس وقت مجھے روتٰی کا خیال تھا ۔
میری چہرے سے عیاں میری پریشانی کو بھانپ کر چوہدری صاحب نے بڑی شفقت سے پوچھا ،
کی گل اے بھایا ظفر ؟ کوئی پریشانی لغدی اے ( کیا بات ہے بھائی ظفر کوئی پریشانی لگتی ہے )۔
میں نے جب سارا معاملہ بتایا تو وڈے چوہدری صاحب بھی پریشان ہو گئے کہ ،ان ڈاکوؤں نے بہت تنگ کیا ہوا ہے ۔
ویسے کتنی رقم تھی ؟ میں نے بتایا کہ اپ بے شک مل سے کنفرم کر لیں ایک کروڑ بیس لاکھ تھی ۔
اوئے بھائی ظفر اب تم کیا ہم سے جھوٹ بولو گے ، اگر تم نے کہہ دیا ایک کروڑ بیس لاکھ تو رقم اتنی ہی ہو گی ۔
کر لیتے ہیں کچھ
تم روٹی شوٹی کھاؤ۔
روٹی کہاں کھائی جانی تھی ، بس کچھ زہر مار کیا کچھ پانی سے نگلا ، اور روٹی ختم کرنے کی ایکٹنگ کر کے منجی پر پریشان بیٹھا تھا کہ  چوہدری صاحب کا کارندہ ایک بریف کیس لے کر حاضر ہو گیا ۔
وڈے چودہرہ صاحب نے مجھے پاس بلایا اور بڑی شفت سے مجھے کہنے لگے ، دیکھو یات تم اپنی برادری کے بھی ہو اور ہمارے علاقے میں لوٹ لئے گئے ہو ۔
اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہم تمہارے لئے کچھ بھی ناں  کریں ۔
انہوں نے بریف کیس مجھے تھماتے ہوئے کہا کہ دیکھو اس بریف کیس میں ساٹھ لاکھ کی رقم ہے ، بس یوں سمجھو کہ ساٹھ لاکھ کا تمہارا نقصان ہو گیا اور ساٹھ لاکھ کا ہی ہمارا نقصان ہو گیا ۔
دیکھو یار ظفر ! اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کر سکتے ۔
اس کے بعد وڈے چودہری صاحب نے اپنے بندے میرے ساتھ کئے ، جو کہ کلاشکوفون سے مسلح تھے  جو مجھے اپنے ضلعے کی حدیں پار کروا کر گئے تھے ۔
بس یارو ! میں تو وڈے چوہدری صاحب کا احسان مند ہوں کہ انہون نے بچا لیا ورنہ اس سال تو  گنے کی فصل تو گئی تھی ڈاکوؤں کی جیب میں ۔
چوہدری ظفر بات ختم کر کے دوسرے زمین داروں کا منہ دیکھتا ہے کہ کیا تاثرات دیتے ہیں ،
لیکن وہ دونوں منہ کھولے حیرانی سے چودہری ظفر کا ،نہ دیکھ رہ تھے ۔
چودہری ان سے پوچھتا ہے ۔
تو دونوں کو کیا ہوا ہے ؟
وہ دونوں زمین دار منماتی آواز میں بولے ۔
بکل یہی معاملہ ہمارے ساتھ بھی ہوا تھا
لیکن ہم نے شرمندگی سے کسی کو بتایا نہیں کہ لوگ کیا کہیں گے!!۔
یہ باتیں سن کر باؤ کمیار ( آڑھتی) نے جو کہا ۔
 اس کو سن کر ان تینوں زمین داروں کو چپ ہی لگ گئی تھی ، اور کئی ہفتوں تک لگی رہی تھی ۔
باؤ کے منہ سے نکلا تھا
یعنہ کہ  وڈے چوہدریوں  کماد کی قیمت دوگنی دینے کا صرف اعلان ہی کیا تھا  ۔
دیتے سب کو وہی  “ قیمت “ رہے ہیں جو دوسرے دے رہے تھے۔

جمعرات، 19 فروری، 2015

ننگے

ہم لوگ ، تہمند ( لکدی) باندھنے والے لوگ تھے ، ہاں ہاں وہی تہمند جو حج عمرے میں احرام میں باندہتے ہیں ،۔
جوان لڑکے تہمند کے " لڑ " لمبے کر کے باندہتے تھے ، جس سے گھٹنے ننگے ہو جاتے تھے ۔ بندہ عجیب لچا سا لگتا تھا ،
 اس لئے
بڑے بزرگ لوگوں کو یہ کہتے سنا ، اور بہت دفعہ سنا ۔
 اوئے منڈیا ! گٹے کج !!۔

سعودی ریال ،مودودی کے افکار اور جرنل ضیاع کا نظام مصطفے !!۔
 لڑکوں کے لباس   مہذب شلوار قیمض ہوئے ! ۔  پھر ہم نے سنا اور بار بار سنا ۔
اوئے منڈیا گٹے ننگے کر ،اوئے گٹے ننگے !!!۔

ہمارے دیکھتے ہیں دیکھے ہر چیز تبدیل ہو گئی ، امن ، تحفظ ، کمائی میں برکت اور دلوں میں محبت ، کی جگہ لڑائی ، خوف کرنسی کی ہوس کدورتیں عام ہوئیں ۔
سعودی اور مودودی نے گٹھنے کیا ننگے کروائے ، ہمارے معاشرے کو ہی ننگا کر کے رکھ دیا ہوا ہے ، اور ابھی یہ مشن مکمل نہیں ہوا ہے ، مشن جاری ہے ،بلکہ جاری اور ساری ہے ۔

اتوار، 1 فروری، 2015

سود اور سور

عیسائیت میں بھی سور کا گوشت کھانا حرام ہے ۔
لیکن یورپ کے  عیسائی سور کا گوشت کھاتے ہیں ۔
کیوں ؟
کیونکہ ان کے  علماء نے کوئی شک نکال کر سور کو بھی جائز کر دیا ہوا ہے ۔
کیپسئین کے سمندر کےشمالی  ممالک میں رہنے والے اور بہت سے ایرانی بھی مسلمان بھی سور کا گوشت کھاتے ہیں ۔
یہودی جہاں بھی ہوں سور کا گوشت نہیں  کھاتے ، برصغیر کے مسلمان جہاں بھی ہوں سور کا گوشت نہیں کھاتے ۔
ان چیزوں کو  سمجھنے کے لئے ان اقوام کا مزاج سمجھنے کی کوشش کر تے ہیں ۔
برصغیر میں ہندو اور بدہ لوگ گوشت کھاتے ہی نہیں تھے ،۔
جب یہاں اسلام آیا تو  مسلمان ہونے والوں کو صدیون تک گوشت کھانے میں تامل رہا ، اور جب کھانے بھی لگے تو پلید اور پاک کا بہت سختی سے خیال کیا ۔
یہودی ، ایک نسل ہیں ، خاندان ہیں ، جن کا اصلی وطن  شام کے اردگرد  کا ہے ۔ گرم موسمی حالات  میں سور کھانے سے ہونے والی بیماریوں کی  قباحت نے ان  کو سور کھانے سے باز رکھا ، صدیون سے بنی عادات ،ٹھنڈے ممالک میں جا کر بھی قائم رہیں اور انہوں نے سور “ کم “ ہی کھایا  ۔
لیکن یورپی معاشروں میں سور ایک عام سی چیز تھی ، جب یہان عسائیت پہنچی تو ؟ سور کی پلیدگی کا یہ لوگ تصور ہی نہیں کر سکے کہ ، جو گوشت روز مرہ میں مسلسل کھا رہے ہیں وہ ایک دم پلید کیسے ہو گیا ؟
جس کے لئے انہوں نے کوئی شک نکال کر سور کے گوشت کو ویسے ہی  کھاتے رہے جیسا کہ صدیوں سے کھا رہے تھے ۔
سور کا گوشت نہ کھانے والے یہودی اور  “ ماس “ سے گریزاں ہندو ! ۔
ہر دو اقوام  “ سود”  ضرور کھاتی رہی ہیں ۔ بلکہ سود کا ایک منظم انتظام رکھتی ہیں ۔
ہند میں جو علاقے اج پاکستان میں شامل ہیں یہاں ، ساہوکار کو “ شاھ” کہا جاتا تھا ۔
شاھ جی یہی ٹرم ہے جو سود خود کے لئے استعمال کی جاتی تھی ، اور  بعد میں خیرات کو حق سمجھ کر وصول کرنے والے مذہبی  لوگوں کو بھی شاھ جی ہی کہا جاتا ہے ۔
قران میں سور کے گوشت کو حرام قرار دیا گیا ہے
اور سود کی امدن کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے ۔
برصغیر کے مسلمان ، اپنے سبزی خور “پچھوکڑ” کی وجہ سے سور کے گوشت سے تو نفرت کرتے ہیں ۔
لیکن
شاھ جی ( ساہوکار) لوگوں کی قابل رشک   لائف کے کمپلکس کی وجہ سے
 سود کی رقم کو کھانے کی کوئی نہ کوئی توجیع نکال ہی لیا کرتے ہیں ۔

مائکرو بلاگنگ ، فیس بک والے اسٹیٹس ۔


 جیدو ڈنگر ، اپنی ماں کے ساتھ کلینک میں داخل ہوتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اچھو بیٹھا رو رہا ہے اور اچھو کی ماں اس کو چپ کرانے کی کوشش کر رہی ہے  ۔
کی ہویا ؟
اوئے جیدو ِ میرا خون دا ٹیسٹ ای ، ڈاکٹر نے سوئی مار کر خون نکالنا ای۔
جیدو ڈنگر  نے ہائے او ربا کہا، اور رونا شروع کر دیا ۔
اچھو پوچھتا ہے
اوئے تینوں کی ہویا اے ؟
اوئے میرا  “موتر” دا ٹیسٹ ای ! میں تے مرجاواں گا ۔

وہ ائرفورس میں کام کرتا تھا ، وہ بتا رہا تھا کہ اس کے بیٹے سے جب بھی کوئی پوچھتا تھا کہ  “ ابا کام کیا کرتا ہے ؟” تو اس کا بیٹا جواب دیتا تھا ۔ “ فوجی “ !۔
میں نے اس کو سختی سے منع کیا کہ بے کا فوجی ہونا نہ بتایا کرئے ۔
بیٹا ،پہلی کلاس میں داخل ہوا، داخلہ فارم کی ایک کاپی مجھے بھی ملی ،  داخلے کے فارم پر ابے کے کام کے خانے میں  لکھاتھا ۔
معلوم نہیں ، لیکن یہ بات پکی ہے کہ باپ فوجی نہیں ہے ۔

جیدو ڈنگر ! بڑا بن ٹھن کے گامے دے کول آیا
تے گامے نوں اپنا کیمرا دے کے ، کہندا اے ۔
یار ! میری اک سلیفی تے بنا دے !۔



دو قومی نظریہ ۔
اس ملک میں دو قومیں پائی جاتی ہیں ۔
ایک قوم
اور دوسری  عوام۔
عوام مرے یا اس کے بچے ،کوئی بات نہیں قوم  کے وقار پر حرف نہیں آنا چاہئے ۔


 مولوی صاحب کہا کرتے تھے ، جن والدین کے نو عمر بچے مر جاتے ہیں ، ان کے والدیں کو جنت کے محل عطا ہوں گے ۔
پشارو کے آرمی سکول میں مرنے والے بچوں کے جنت کے محلوں کا انتظام ناپاک طالبان نے کیا ہے
اور  پچھلے دس سال سے پاک فوج اس سے کہیں زیادہ تعداد کے والدیں کو جنت کے محلوں کا حق دار بنا چکی ہے  ۔

یا اللہ ! مجھے اتنی زیادہ طاقت دے کہ میں اپنے دشمنوں اور مخالفوں کو معافی مانگنے پر مجبور کرنے کے قابل ہو جاؤں۔
ورنہ ، گولی تو افیمی ، چرسی اور فوجی بھی مار سکتے  ہیں ۔

کسی سیانے کا قول ہے کہ نیچ سے نیچ بات کی حمایت میں بھی کچھ نہ کچھ لوگ نکل ہی آتے ہیں ۔
فوج کا پیشہ ہوتا ہے  “جنگ” اور پاک فوج کو جنگ میں جو مشکلات ہیں ۔
آپریشن کرو، آبادی کا انخلا نہ کرائو تو بمباری اور گولہ باری سے نقصان ہوگا، انخلا کرائو تو جو نقشہ آپ نے کھینچا، وہ بنے گا۔ آپریشن نہ کرو تو وہ علاقہ دہشت گردی کا مسکن بنا رہے گا، اآپریشن کرو، انخلا کرائو اور چیک پوسٹوں پر چیکنگ نہ کرائو تو پھر اس انخلا کا فائدہ کوئی نہیں تھا،

ان کا بھی ذکر ہونا چاہئے
لیکن یہ بھی تو ہونا چاہئے کہ  کوئی اتھارٹی کوئی وزارت ، کوئی عہدھ  کوئی بندہ  فوج کی پیشہ ورانہ کوالٹی کو چیک کرنے والا ہے ہی نہیں ۔
جنگ کہ جس ہنر میں فوج یکتا ہے
ڈھاکہ میں ہو یا کہ وزیرسان میں یا کہ بلوچستان میں ، فوج کے ہنر کا نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔

اور جو کام فوج نے بڑی خلوص نیت سے کیا ہے  یعنی کہ حکومت پر قبضہ ( ڈاےریکٹ یا ان ڈائریکٹ) کیا ہوا ہے ۔
 انیس سو باون سے ، اس ہنر کے فن پارے تو تاریخ دان لکھے ، آج کا لکھنے والا اور وہ جو پاکستان میں ہے وہ نہیں لکھ سکتا ۔
اگر لکھے گا تو “ مسنگ پرسن “ ہو جائے گا ۔
ویسے اس ہنر میں بھی فرشتے ، تکتا ہیں ۔

کالی تتری کمادوں نکلی
تے اڈدی تو باز بئے گیا۔
۔
فوجی عدالتون کا قیام ۔


پھانسی کی سزا کے خلاف دنیا بھر میں کچھ تنظیمیں آواز اٹھاتی ہیں ،۔
جاپان میں بھی پھانسی کی سزا کے خلاف کام کرنے والی تنظیمں ہیں ، جن کے اثر سے یہ ہوا ہے کہ اب جاپانی عدالتیں موت کی سزا صرف ان کیسوں میں دیتی ہیں جن میں بہیمانہ قتل کئے گئے ہوں اور قتل بھی ایک سے زیادہ افراد کے ہوں ۔
اور جن مجرمان کو پھانسی دی بھی جاتی ہے ان کو بہت خفیہ رکھا جاتا ہے ۔
جاپان جیسے معاشرے میں جہاں کیمرہ ایک عام سی بات ہے وہاں اپ کو کبھی بھی کسی کو پھانسی دی جانے کی فوٹو یا ویڈیو نہیں ملے گی ۔

صنعتی انقلاب کے پہلے دور میں مجرموں کو گولی مارنے کی سزا بھی دی جاتی تھی ۔
گولی مارنے کے عدالتی حکم کے بعد ، اس سزا کا ایک طریقہ کار متعین تھا ،۔
گولی مارنے والے نشانے باز جلاد بھی انسان ہی ہوتے ہیں ، اور کسی انسان کی جان لینا اگرچہ کہ اپنے فرض کی ادائیگی ہی کیوں نہ ہو انسان کی نفسیات کو مےاثر کرتا ہے ۔
اس لئے گولی مارنے کا طریقہ کار یہ تھا کہ
ایک مجرم کو گولی مارنے کے لئے گیارہ نشانے باز جلاد ہوں گے ، جن کے سامنے گیارہ گولیاں رکھی جائیں گی کہ ان میں سے ایک ایک اٹھا لیں ،۔
ان گیارہ گولیوں میں صرف ایک گولی اصلی ہو گی ، باقی کی دس گولیاں صرف پٹاخہ ہوں گی ۔
بہترین نشانے باز گیارہ بندے ، حکم دینے والی کی آواز پر یک دم گولیاں چلا دیں گے ۔
مجرم کی موت کس کی گولی سے ہوئی ہے ؟ اس بات کا کسی کو بھی علم نہں ہے ۔
ہر نشانے باز جلاد یہی سمجھا رہے گا کہ وہ مجرم میری گولی سے نہیں مرا ہو گا ، اس بات کا “ شک” بڑھاپے میں ، یا کہ
سردیوں کی لمبی راتوں میں ، کسی کی جان لینے دکھ آ آ کر تنگ نہیں کرئے گا ۔

میرے علم کے مطابق یورپی یونین کے کسی بھی ملک میں پھانسی تو کجا موت کی سزا بھی نہیں ہے ۔
امریکہ کی کچھ ریاستوں میں موت کی سزا ہے لیکن وہاں بھی پھانسی پر نہیں لٹکایا جاتا ، بلکہ بجلی کی کرسی اور زہر کے ٹیکے کے ساتھ سلا دیا جاتا ہے ۔
کم عقل لوگوں کی آگاہی کے لئے ، ایک بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ
پھانسی کی سزا کے خلاف آواز ، موت کی سزا کے خلاف اواز نہیں ہے ۔
پھانسی کی سزا کے خلاز آواز اٹھانے والے لوگوں کو موقف یہ ہوتا ہے کہ بہیمانہ سزاؤں کو ختم ہونا چاہئے ۔
ہاں ! اس کے بعد موت کی سزا کے خلاف کام کرنے والی تنطیمیں اور ممالک بھی ہیں جیسے کہ یورپی یونین میں سزائے موت نہیں ہے ۔
بے عقل معاشروں میں ، قانون کے نام پر ، امن کے نام پر یا کہ دہشت کردی کے نام پر جو قتل گولیاں مار مار کر کئے جاتے ہیں
کھیتوں میں پہاڑوں میں گلیوں اور چوکوں میں !۔
ایسے قتلوں کو ختم ہونا چاہئے ۔
 پھانسی کی سزا میں بھی مجرم کے منہ پر کالا غلاف چڑھایا جاتا ہے ۔
جو کہ مجرم کی موت واقع ہونے کے بعد پھانسی سے اتار کر ،لٹانے تک نہیں اتارا جاتا ۔
لیکن پاکستان میں ، ہونے والی حالیہ پھانسیوں  کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں ، کن میں مجرم کے منہ پر کوئی غلاف نہیں ہے ، اور پھانسی پر  لٹکی ہوئی انسانی لاشوں کی فوٹو بڑے فخر سے دکھائی جا رہی ہیں ۔

Popular Posts