جمعرات، 26 دسمبر، 2013

ہند کی ذاتیں اور پاک قوم

اگرچہ کہ پرانوں میں لکھا ہے
کہ وہ بندہ جو دھرم بھاؤ والا ہو ، جس کے کھانے پینے اور پہننے میں اصول اور ضوابط ہوں ، جو پربو ( خدا) کی عبادت میں مگن رہتا ہو ،
اس کو معاشرے کا معزز ترین بندہ تسلیم کیا جانا چاہئے ۔
اس کو برہمن کا نام دیا گیا ۔
وہ جو اپنے جان کی بازی لگا کر وطن کی ،دھرتی ماں کی حفاظت کرتا ہے ،
اگرچہ کہ اس کے قول  میں کبھی جھوٹ بھی شامل ہوتا ہے اور کھانے میں نشے  کی بھی احتیاط نہیں کرتا ، اس کو معاشرے میں دوسرا درجہ دیا جائے گا ۔
اور اس کو کشھتری کہیں گے۔

اسی طرح دوسری  جاتیوں کا  کا انتطام ہے کہ ان کی بھی ڈیفینیشنز بنائی گئیں ۔
تیسری کاسٹ “ویش “ کی ڈیفینیشنز ہیں
کہ وہ لوگ جو سیکھے ہوئے کام کرتے ہیں اور اپنے اولادوں کو بھی سکھاتے ہیں  ۔ یعنی کہ سیکھے اور سکھائے ہوئے کام کرنے والے لوگ ۔
کمہار ، جولاہے ، ترکھان لہار وغیرہ ، ۔
 لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسا کہ مذاہب کے ساتھ ہوتا ہے ان کی تعلیمات  میں بدعدتیں اتی جاتی ہیں  ، اسی طرح یہ ہوا کہ
برہمن کا بیٹا برہمن ہی کی طرح ٹریٹ کیا گیا ، چاہے کہ اس کی عادات نیچوں جیسی ہی کیوں نہ ہوئیں ،۔
پے در پے بیرونی حملوں نے ہند کے کشھتریوں کو اہم سے اہم درجات پر بلند کر دیا ۔
پہاڑوں سے اتر کر انے والے  اجڈ اور وحشیوں کے حملوں سے تحفظ یہی کشھتری کیا کرتے تھے  ۔
پھر بیرونی حملہ آوروں نے “ اسلام “ متعارف کروایا ، جس میں پہلی بار ہند کے لوگوں کو انسانوں کی برابری کا علم ہوا۔
ہند میں برابری کے نام پر اسلام لانے والوں نے چند ہی صدیوں میں ہند کے ذات پات کے اصولوں اور روایات کو مشرف اسلام کرلیا ۔
برہمن کی جگہ ، اسلام نے سید کو متعارف کروایا ۔ ہند کے زیادہ تر علاقوں میں  سود خور مہاجن کو “شاھ جی” کے نام سے پکارا کرتے تھے ، بادشاہ کی طرح کا بندہ جو کہ دولت مند ہوتا تھا ، اس کو شاھ جی کہتے تھے ، جب برہمن کا اسلامی ایڈیشن نکلا تو ہند کے سیانوں نے ان کو بھی شاھ جی کا نام دے دیا ، اس نام کو دینے کے پیچھے کیا رمزیں تھیں ان پر اپ خود سوچ بچار کریں کہ یہ ناقابل تحریر ہیں ،

لیکن جو بھی دھرم ہوا کہ مذہب ،اس نے ہند کے ذات پات اور چھوت چھات کو برقرار رکھا۔ پھر انگریز آ گیا ، جس نے برابری کا نظام متعارف کروایا ، بلکہ  اپنے ملک میں تو اس کو رائج کرکے دے دیا ،
انگریز کو برابری کا یہ  نظام دینے کی وجہ سے قدرت نے جو عروج دیا ہوا ہے اس کی  نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی ۔
لیکن اس انگریز کے گماشتوں نے بھی  ہند میں ہندو کو اسی ذات پات میں مبتلا رکھا اور مسلمان نے پیری مریدی کے نظام میں مبتلا کرکے اسی ذات پات کے نظام کو برقرار رکھا ۔
لیکن انگریز کے سو سالہ نظام کی وجہ سے کچھ تعلیم اور روشنی تھی کہ قدرت کا نظام کہ
تیسری جاتی (ویش) کے لوگوں کو اپنی وقعت کا احساس ہونے لگا۔
کہ ہم بھی انسان ہیں ۔
اور کچھ یہ ہوا کہ ہند کی تقسیم ہو گئی
اور کمیوں ، کسانوں اور کاریگروں کو پاکستان مل گیا ۔
یہاں اب ان لوگوں نے اپنی صدیوں کی بے وقعتی احساس مٹانے کی کوششیں شروع کر دیں ۔
پیشے ، شرمناک چیز بن کے رہ گئے ،ہر کسی کو اپنے دادے کے پیشے پہ شرمندگی ہونے لگی ۔
اکثریت کی سوچ کہ ،پیشے کو چھپانے کی کوشش میں کیا کیا جائے کہ لوگ مجھے نیچ نہ سمجھیں ؟
لیکن اس بات کا احساس نہ ہوا کہ کون نیچ اور کون اٗچار؟
جب میں کمہار ہوں تو پڑوسی جولاہا نہ ہوا تو لوہار ہو گا۔
ہر حال میں خود کو چھپانے کی کوشش کی گئی ۔ جن کے داوں کی آئل ملیں تھیں ان کو تیلی کی بجائے ملک کہلوانے میں پناھ ملی ۔
سرامک انڈسٹری والوں کی اولادیں کمہار کہلوانے کی بجائے “رحمانی” کہلوانے لگیں  ۔
http://khawarking.blogspot.jp/2006/10/blog-post_26.html
لیکن ہر کسی کے اپنے نام کے لاحقے یا سابقے میں اس بات کا خیال رکھا کہ
میں ایک بے پیشہ بندہ ہوں ،۔
ملک صاحب ، شیخ صاحب ، سید صاحب  ، چوہدری صاحب  ، ان کے نام سن کر بندہ کسی پیشے کا اندازہ نہیں لگا سکتا ۔
وہ لوگ جو اپنا علاقہ نہیں چھوڑ سکتے تھے ، انہوں نے اپنے نام کے ساتھ اپنی گوت کا اضافہ کرکے ، اپنے پیشے کو چھپانے کی کوشش کی ۔ جیسا کہ کھوکھر ، بھٹی ، رانا وغیرہ ۔
کچھ یہ بھی ہوا کہ زمانے کی ہوائیں بدلنے لگیں ، پیشوں میں بھی ایک تنوع پیدا ہوا ،۔
اب باٹا والوں کو موچی تو کہنے سے رہے ۔ یا کہ فونڈری کے کام والے کو لوہار !!۔
حالانکہ مسواکیں بیچنے والا بھی تو ایک قسم کا ٹمبر مرچنٹ ہی ہوتا ہے ۔
یہ ساری چیزیں دیکھ کر مجھے
جاپان کے شہنشاہ میجی ، ( 1852to  1912) کا ایک تاریخی کام یاد آ گیا
کہ
شہنشاہ نے اپنے دور میں ایک حکم کے ذریعے سب لوگوں کو ایک خاندانی نام چننے کا کہا،۔
اس حکم کے تحت ہر جاپانی کا ایک نام ہو گا  اور ایک اس کا خاندانی نام ہو گا ۔
یعنی ہر بندے کا نام کے دو حصے ہوں گے،
نام ، اور فیملی نام !۔
فیملی نام نسل در نسل چلے گا
اور نام وہ ہو گا جو والدین کسی بھی بچے کا رکھیں گے ۔
اور یہ خاندانی نام چننے کا حق لوگوں کو دے دیا گیا ، یا یہ کہہ لیں کہ ان لوگوں کو جس نام چیز سے یا بات سے ان کے قریبی لگ پہچانتے تھے ، وہ الفاظ ان کا خاندانی نام ہوں گے۔
حکومتی اہلکارا، سارے ملک میں پھیل گئے ۔
اس کام کے لئے کہ مردم شماری اور لوگوں کے نام رجسٹر میں چڑھانے کے لئے۔
لوگوں  کا فیمل نام چننے کا طریقہ کچھ اس طرح تھا کہ
اپنے گاؤں محلے میں جو خاندان پہلے ہی کسی نام سے پہچناے جاتے تھے ، ان کا فیملی نام بھی وہی لکھ دیا گیا ۔
جس کی مثال اگر میں پنجاب کے دیہاتی ماحول سے دوں تو کچھ اس طرخ کی بنتی ہے ۔
ٹاہلی والئے ، بیری والئے ، سارنگی، وغیرہ۔
شہنشاہ کے اہلکار جب کسی دیہات میں پہنچتے تو  ایسا بھی ہوا کہ
ایک گاؤں کے مشرق کے لووں کو “مشرقی” مغرب کی طرف کے لوگوں کو “مغربی” اور اسی طرح شمال اور جنوب والے  کا نام دے دیا ، اور گاؤں کے درمیان والوں کو “ وچکارلے “ کا نام دے دیا۔

بہت سے دیہاتی علاقوں میں اس حکم کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ، کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ایک وقتی ابال ہے جو کہ جلدی  ہی بیٹھ جائے گا اور معاملات اسی طرح چلتے رہیں گے جیس کہ اب تک چل رہے تھے ۔
اس لئے جب کچھ دیہات میں حکومتی اہلکار پہنچے تو ، لوگ کھیتوں میں کام کر رہے تھے ۔
جب ان سے اپنے نام چننے کا کہا گیا تو ، جس کے ہاتھ میں مولی تھی اس نے کہا کہ چلو میرا نام مولی رکھ دو، ستم  ظریف اہلکاروں نے اسی طرح سے ان کے نام رجسٹر کر دئے ۔
بہت کم ہی سہی لیکن اج بھی ایسے جاپانی مل جائیں گے جن کے نام مولی ، بینگن بھی ہوسکتے ہیں ،
بہت ہی عام ناموں میں کی مصال اگر پنجابی میں دیں تو کچھ اس طرح بنتے ہیں ،۔
چھوٹا کھیت ، بڑا کھیت ، درمیانہ کھیت ، کالی لکڑی ، درخت کے نیچے ، لکڑی کا گاؤں  ، مغربی گاؤں  ، کنکر ، پتھریلا کنواں ، چھوٹا ٹیلا ، بڑا ٹیلا، ۔
تو اب پھر موضوع کی طرف پلٹتے ہیں کہ
پاکستان ، میں بھی لوگون کو اپنے اپنے پیشے سے سے اتنی الرجی ہے کہ کسی اور نے کسی ہنر مند کو نیچ کیا سمجھنا ہے ،
یہ لوگ خود ہی خود کو نیچ جان کر خود کو چھپاتے پھر رہے ہیں ۔
تو کیوں نہ جی پاکستانی قوم کو بھی اس شرمندگی سے بچانے کے لئے ، شہنشاہ میجی کا طریقہ اپنایا جائے
اور لوگوں کو اپنے اپنے پسندیدہ نام چن لئے جانے دئے جائیں ۔
لیکن جو میں دیکھ رہا ہوں تو
اج کے پاکستان میں تعلیم کی کمی اور جھوٹ کی پرورش سے یہ حال ہو چکا ہے کہ “لوغ” انسانوں کی بجائے جانور بننے کو ترجیع دیں گے۔کمہار کہلوانے کی نسبت ایک جانور “شیر” کہلوانا پسند کریں گے ۔ جولاہا کہلوانے کی نسبت “باز” کہلوانا پسند کریں گے ۔
اپ کا کیا خیال ہے ؟ اپ اپنا نام کیا رکھنا پسند کریں گے ؟
یاد رہے کہ یہ نام اپ کی نسلوں کو اپنانا پڑے گا ، صدیوں پر محیط اور نسلوں کی امانت ، کیا اپ ایسا نام رکھنا پسند کریں گے جو کہ اپ کے جذباتی فیصلے کا نتیجہ ہو
اور اپنانا پڑے انے والی نسلوں کو ۔

ہفتہ، 14 دسمبر، 2013

پاک مودودی ستان



پاکستان کو بنانے والوں نے اپنے علاقے کو علیحدہ کرکے اس کا نام بنگلا دیش رکھا لیا۔
اور بنے بنائے پاکستان کے نام سے محبت کرنے والوں کو منافقوں کی طرح ٹریٹ کرکے ذلیل کرکے رکھ دیا ۔
جس کی سب سے بڑی مثال بنگال کے بہاریوں کی ہے اور اس کے بعد ، جماعت اسلامی کی
کہ جس جماعت نے پاکستان کی مخالفت کی تھی اور پھر بنگال دیش کی بھی مخالفت کی تھی۔
اور اپنی ان سب مخالفتوں کانام “اسلام “ رکھ کردیا ہے
تو
جماعت اسلامی کو بھی شہید مبارک ہوں ۔
پاکستان کے معماروں کو اکہتر میں شہیدوں کی لاشیں اتنی وافر ملی تھیں کہ ان کو بھولتی ہی نہیں ہیں ۔
عمرانیات کے ماہر کہتے ہں کہ انسانوں کی ایک نسل پندرہ سال میں تیار ہوتی ہے ۔
سن انیس سو چہتر میں سرمے والی سرکار جرنل ضیاع  کے دور میں جس اسلام کا “نزول” شروع ہوا تھا ۔
وہ مودودی صاحب کی تفہیم القران نامی کتاب سے شروع ہوا تھا۔
لاہور کے شاہی قلعے میں جن “ منکرین “ کو ڈالا جاتا تھا ان کے ہاتھ میں تفہیم القران پکڑا دی جاتی تھی ۔
اور میڈیا پر اسلام اسلام کا پرچار تھا
نہی ان المنکر اور امر بالمعروف کا بتایا گیا
یعنی کہ دوسروں کو نیکی کی تلقین اور دوسروں کو بدی سے منع کرنے کی تعلیم
لیکن خود کو بدی سے باز رہنے یا نیکی کرنے کی بات کو ایسی بری طرح پیچھے ڈالا گیا کہ
پاکستان کی دو نسلیں اس تعلیم سے تیار ہو چکی ہیں
اور ہر بندہ دوسرے کو نیکی کی تلقین کر رہا ہے اور بزور بازو ہر دوسرے کو بدی سے روک رہا ہے
لیکن اس بات کا علم کسی کو بھی نہیں ہے کہ نیکی کیا ہوتی ہے اور بدی کی کیا تعریف ہے ۔
اج کا پاکستان ، جو کہ انتہائی اسلامی روجحان کا ملک ہے
اس ملک میں جو حالات اج سے تین دہائیاں پہلے تھے
کیا وہ اچھے تھے یا کہ اج کے حالات ؟
یقیناً ہر ذی الشعور تین دہایاں پہلے کے حالات کو  ہی بہتر کہے گا ۔
بنگالی جو کہ سیاسی طور پر برصغیر کی باشعور ترین قوم ہیں
انہوں نے سب سے پہلے اس بات کا اندازہ لگا لیا کہ مودودی صاحب کی تعلیمات  معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنتی ہیں ۔
جرنل ضیاع  کے دور میں اور اس کے بعد ، جماعت اسلامی کو پاکستان میں “اپنا اسلام “ پھلانے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔
اگر کوئی تھی تو ؟ کوئی مجھے بھی بتائے؟
اور اس دور میں یعنی چھتیس سال  میں جو حال اسلام کا پاکستان میں ہے ۔ کیا یہ کوئی قابل رشک حال ہے ؟
اس لئے اب اگر پاکستان والے “اسلامی” ماحول سے بچنے کی کوشش میں کوئی مودودی کی کتابوں پر پابندی لگاتا ہے تو؟
میں تو اسے دور اندیش کہوں گا۔
بنگالی لوگ ، مودودی صاحب کی تعلیمات اور  معلم حضرات کے ساتھ جو بھی کر رہے ہیں
میرے خیال میں اپنے ملک اور قوم کے لئے ٹھیک کررہے ہیں ۔
اگر چہ کہ یہ کام جماعت اسلامی کے لئے غلط ہو !!۔
جماعت کا کیا ہے
ان کے نزدیک تو پاکستان کا اسلام بھی غلط تھا
جس کو ٹھیک کرتے کرتے انہوں نے پاکستان کا یہ حال کر دیا ہے کہ
جس کے جواب میں جماعت کا کوئی جماتیا کہہ سکتا ہے کہ
کیا ہوا ہے پاکستان کو ؟
کچھ بھی تو نہیں ہوا
بس
 پاکستان بہت ہی پاک ہو گیا ہے کہ
لوگ یہاں سے بھاگنے کے لئے ویزوں کے لئے دھکے کھا رہے ہیں ۔
مودودی صاحب کو بھی پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی، مجھے اس خبر کی سرخی ابھی تک یاد ہے
اور پھر؟
پتہ نہیں کیا ہوا کہ وہ سزا کینسل ہو گئی تھی۔
اس کے بعد مودودی صاحب کی تعلیمات کے اسلام والا پاکستان ہے
جس کے متعلق میرا خیال ہے کہ
میرا تو جی پاکستان ہی “گواچ” گیا ۔
کہ میں گم کردہ پاکستان کی تلاش میں ہوں ۔
پاکستان کو بنانے والے اصلی لوگ بنگالی ھے
اکہتر میں اگر بنگالی اس بات کا دعوہ کردیتے کہ
ہمارا ملک پاکستان ہے
اور
تم لوگ اپنے ملک کا کوئی اور نام رکھ لو
تو؟
تو یہ بھی کوئی غلط مطالبہ نہ ہوتا ۔
اج کے پاکستانیوں کو ، پاکستان بنا کر دینے والے بنگالیوں نے مودودی صاحب کی تعلمات کی مخالفت شروع کر دی ہے ۔
اب دیکھیں بات کہاں تک جاتی ہے
کاش کہ میرے وطن تک آ جائے ۔ کہ جو اسلام پچھلے پینتیس سال سے مودودی صاحب کے ماننے والے ، فوج کے تعاون سے میری قوم کی “بغل “ میں دئے جا رہے ہیں ، ۔
اس کی وحشت سے میرے اپنوں کو نجات ملے ۔

جمعرات، 5 دسمبر، 2013

پانی کی شرمندگی

پانی!۔
پانی جو حیات افرین ہے ، حیات کی نشانی  ہے حیات بخش ہے ۔
جہاں پانی ہو گا وہاں زندگی ہو گی ۔ دنیا کی سبھی قدیم تہذیبیں  پانی کے کناروں پر پروان چڑھیں ۔
سائینس دان لوگوں کا یقین ہے کہ اگر کسی سیارے پر پانی مل جائے تو وہاں زندگی بھی ہو گی ، وہاں زندگی پنپ  سکے گی وہاں زندگی گزاری جاسکے گی ۔
پانی ہے تو حیات ہے ، پانی جہان زندگی کو بقا عطاکرتا ہے وہیں ، حیات کو پاکیزگی بھی عطا کرتا ہے ۔
یہ پانی ہی ہے جو ہر پلیدی کو خود میں سمو کر ، پلید کو پاک کرتا ہے ۔
پلید کو پاک کرکے ، اس کی پلیدی کو لے کر جب پانی چلتا ہے تو ، پانی بھی اس پلیدی سے شرمندہ ہوتا ہے ۔
شرمندہ غیرت مند منہ چھپاتے ہیں ، اندہیرے میں راہ ڈھوبڈتے ہیں ، کہیں نکل جانے کی راہ ، کہیں خود کو پاء لینے کی جاہ کہ  خود کو پاک کر لینے کی جگہ!!۔
پانی جو کہ سب پلیدوں کو پاک کرتا ہے
اگر خود پلید ہو جائے تو اس کو کون پاک کرے گا ؟؟
اس کو دھرتی ماں  ، مٹی پاک کرتی ہے ۔
پانی جب بندے کی  غلاظتیں ، میل ، اور داغ دھو کر “ گندا” ہو جاتا ہے تو؟ منہ چھپا کر نکل جانا چاہتا ہے ، دھرتی ماں کی اغوش میں چھپ جانے کے لئے ، ماں کی کھوکھ سے دوبارہ جنم لینے کے لئے ، اپنی پلیدیوں کو طہارتوں میں بدلنے کے لئے ۔
شرمسار پانی کو گزرنے کے لئے ایک تاریک راہ چاہئے ہوتی ہے ، ایک راستہ چاہیے ہوتا ہے ، جو اس کو پلید کرنے والی ابادیوں سے اس کو باہر لے جائے ، ابادیوں سے باہر جا کر ہی پانی ماں کی اغوش میں گم ہوتا ہے یا پھر دھرتی کی حدّت کی ملامت اس کو بھاپ بنا کر ہواؤں میں بکھیر دیتی ہے۔
 کہ  بارش بن کر ایک بار پھر اپنی ماں دھرتی ماں کی آغوش میں اتر کر جذب ہو جائے  ۔
پانی کا یہی مقدر ہے  ، اور قدرت کا دستور بھی کہ اسی میں پانی کی حیات  ہے ۔
حیات بخشنے والے رب کا فرمان ہے کہ اس نے پانی کی ایک مقرر مقدار زمین پر نازل کی ہے !!۔
اور پھر عقل والوں نے دیکھا کہ اس مقرر مقدار کی حیات کا ایک دائرہ بنا کر دیا ،
 کہ پانی انسانوں اور جانوروں کی حیات کا ضامن ہو گا اور ان کی طہارت کا بھی ذمہ دار ہو گا۔
پانی بھاپ بن کر اڑے کا ، پہاڑوں  اور میدانوں میں سمندروں میں برسے گا ۔ میدانوں کی بارش ، زمین اور زمین کے باسیوں کی فوری زندگی بنے گی ، پہاڑوں  پر پانی برف کی شکل میں قیام کرئے گا ، اور اہستہ آہستہ پگھل کر دریاوں میں بہتا ہوا بہت سی زندگیوں کو سہارا دیتا چلتا رہے گا ۔
لیکن!۔
اور جو قومیں ، جانور اور لوگ پانی کو پلید کر کےے اس کو بے عزت کر دیں گے
پلید کر کے اس شرمندہ پانی کو نکلنے کے راستے دینے کی بجائے  اس کے راستے بند کرئیں گے ۔
جن لوگوں کو اپنی زندگیوں میں شرمندگی کا ہی علم نہ ہو  وہ کسی غیرت مند شرمندہ کی کیفیت کو سمجھنے کی بجائے ، اس کو اور بھی پلید کرکے بے عزت کر کے گھر سے نکال کر دروازہ بند کر لیں
تو؟؟
بجائے اس کے کہ شرمندہ پانی کو ڈھکی ہوئی تاریک نالیاں  کی صورت  “نکل جانے “ کا راستہ دیں ،
اس کو گلیوں میں ٹھوکروں میں رکھ لیں ، اس شرمندہ غیرت مند کو روندھتے  ہوئے چلیں ۔
اور اس کو طعنے بھی دیں ، “گندا پانی” ، غلیظ ، کیچڑ ۔
تو بے چارہ پھر کیا کرئے ؟
پھر پانی وہ کرے گا
جو
 وہ
پاکستان میں کر رہا ہے ۔
پانی غصہ کرئے گا
اور بے غیرت ہو جائے گا
اور غلیظ حیاتوں کی پرورش کرئے گا
یہ غلیظ حیاتیں ، گندگیاں ، پلٹ کر پانی کو پلید کر کے پانی کی بے عزتی کرنے والے  لوگوں کے گھروں میں بیماریاں بن کر داخل ہو کر!۔
ان لوگوں کو بیماریوں میں مبتلا کرکے رکھ دیں گی ۔
زمین کو حیات بخشنے والا پانی  ، ان لوگوں کی حیات کو عذاب بنا کر دکھ دے گا۔
عذاب ، بیماریوں سے ، غربت سے کرب سے !۔
یہ دستور ہے فظرت کا  اور فطرت کے آئین میں ترامیم نہیں ہوا کرتی ۔

Popular Posts