بدھ، 26 جون، 2013

گور پیا کوئی ہور

عبدل ستار ایدھی صاحب اور افریقہ کے نیلسن منڈیلا صاحب
ان دنوں علیل ہیں ۔
موت سے مفر نہیں۔
ہر سانس لینے والے ( نفس) کو موت انی ہی انی ہے
لیکن کچھ لوگوں کا موت  بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
اپ دیکھ لینا کہ ان دونوں کے نام صدیون تک رہیں گے اور ان دونوں کے کام بھی  بہت دیر تک لوگ دیکھتے رہیں گے
موت  سے تو ابو جہل کا نام بھی نہیں مر سکا
اس لئے اپ دیکھ لینا کہ
جرنل عیوب ، جرنل ضیاع ، جرنل یہی جا، کانام بھی تاریخ میں زندہ رہے گا
لیکن
انے والے زمانوں کا تاریخ دان لکھے گا  کیا؟؟
شیخ سعدی شیرازی سے کسی نے پوچھا کہ
اتنی عقل کہاں سے لی؟
شیخ سعدی شیرازی کے بتایا کہ بیوقوفوں سے!!!۔
کہ جو کام بیوقوف کرتے ہیں میں نہیں کرتا۔
انے والے زمانوں کے لوگ ملک چلانے کے اصول بنانے میں پاک جرنلوں کے نام لیا کریں گے کہ
جو کام انہوں نے کئے
وہ کام نہیں کرنے ہیں ۔
لیکن جرنل مشرف صاحب آفرین کے قابل ہیں
کہ
ان کے کاموں کی وجہ سے پاکستان کے کم عقل ترین لوگوں تک بھی اس بات کا علم پہنچ گیا
کہ
فوج کر کیا رہی ہے!!!۔
کہ ہم جیسے جب فوج  کے کاموں پر تنقید کرتے ہیں تو لوگ
کم از کم سننے تو لگے ہیں۔
ورنہ اس سے پہلے تو
فوج پر انگلی اٹھانا " عوامی تفتیش" عرف گیڈر کٗٹ کا شکار ہو جانا "مسٹ " تھا جی مسٹ!!!!۔
اور جرنل کیانی صاحب کا نام بھی تاریخ میں زندہ رہے کا
مسنگ پرسن    کے کارناموں سے!!!۔
بلھّے شاھ نے کہا تھا

بلھے شاھ اساں ناہی مرنا
گور پیا کوئی ہور
تیری بکل دے وچ چور
اوئے بلھیا
تیری بکل دے وچ چور۔

یہاں ہر کسی نے  جی جی کر بھی مرجانا ہے۔

لیکن عظیم ہیں وہ لوگ
جن کا
قبر بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔

جمعرات، 20 جون، 2013

جھوٹ کا کرب

تاریخ پاکستان
لاہور کے شاہی قلعے کی صرف چند دیواروں اور دروازے تک کی تاریک تاریخ بتا کر شارٹ کٹ مارا جاتا ہے
کہ
بادشاہی مسجد کے ساتھ مفکر پاکستان کی قبر ہے اور یہاں سے لے کر مینار پاکستان تک کا سفر ہی تاریخ ہے۔
راجہ لو سے لے کر مغلوں تک کی ثقافت اور تاریخ تو غرق کی ہی ہے
بادشاہی مسجد سے مفکر پاکستان کے ساتھ راجے رنجیت سنگھ کی مڑی کا کیا کرنا ہے؟
اس مڑی سے جڑی تاریخ کا کیا ہوا ؟؟
ہاہاہاہا
بے چارے لوگ!!!۔
مغالطوں اور مبالغوں سے بھری جھوٹی تعلیم کو لے کر چلے ہیں قوموں کی برادری میں معتبر بننے!!!َ۔

ہاہاہاہا خاور وی پاغل ای اے
کہ خود بھی تو ان میں ہی سے ہے ناں جی ۔ جن کو یہ تعلیم دی جارہی ہے ۔
خاور بھی کیا کرے
کہ اس کوے کی طرح جس نے چونا لگا کر  ہنسوں میں شامل ہونا چاہا تھا
اس کی طرح منافقت نہیں کر سکتا
ہاں خاور ایک مجبور محض ہے کہ
اس کے سارے اپنے لوگ جھوٹ کے کرب میں مبتلا کر دیئے گئے ہیں ۔
لیکن خاور ان کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتا ۔ سوائے اپنا کرب لکھنے کے ۔
جھوٹ کا کرب ہر طرف ہے ہر چیز میں ہے
کہ اب تو لوگ جھوٹ بول کر شرمندہ بھی نہیں ہوتے

جمعرات، 13 جون، 2013

محفلی تکنیک کی باتاں

خاور صاحب !!!۔
اب جب کہ تم لکھتے بھی ہو اور اون لائین اخبار بھی چلاتے ہو تو
تم کو  اب ایسی محفلوں میں بھی جانے کا موقع ملے گا جو کہ ایک عام سے کمہار کو ملنا ناممکن سی چیز ہے۔
سرکاری ملازموں کی دی گئی دعوتیں  ہوں گی۔
سرکاری ملازموں "کو" دی گئی دعوتیں بھی ہوں گی۔
یاد رکھنا کہ طاقت کا محور سرکاری لوگ ہی ہوا کرتے ہیں ، اور زمین پر خدا بنے سیاستدان بھی ہوتے ہیں جو کہ خود کو رزق کی تقسیم کا ٹھیکدار بنا کر پیش کرتے ہیں۔
ایسی دعوتوں میں تم کو  کسی قسم کے لوگوں سے اور حالات سے پالا پڑ سکتا ہے
اس کے متعلق میں تمہیں دفعتاً فوقتاً بتاتا رہوں گا۔
خاور یاد رکھنا کہ یہاں تم کو  ایسے لوگ بھی ملیں گے
بلکہ ہر محفل میں ایک آدھ دانہ ضرور ہو گا
کہ
جو مہمان خصوصی کے سامنے والی کرسی پر بیٹھے گا۔
مہمان خصوصی کی ساری توجہ کا  خواہش مند یہ دانہ تمہاری انسلٹ کر سکتا ہے
کیسے ؟
اور اس کا حل کیا ہے؟
یہ بندہ تم اگر کسی بات کے لئے جب مہمان خصوصی پاس جاؤ گے تو اس کے سامنے کی کرسی پر ہونے کی وجہ سے جب تم اس کے سر پر کھڑے ہو جاؤ گے تو 
اپنی حثیت کے بچاؤ کے لئے ، یہ بندہ تمہاری انسلٹ کرسکتا ہے
انسلٹ کا طریقہ کار یہ ہو گا کہ
تمہاری بات کاٹ کر کہے گا کہ تمہارے پاؤں نے میری جوتی کو ٹچ کیا ہے،
یا میرے کپڑے کی استری خراب ہو گئی ہے
یا پھر یہ کہے گا کہ کھانا تو کھا لینے دو۔
اس بندے سے بچاؤ کا طریقہ یہ کرنا ہے کہ
اک قدم پیچھے ہٹ کر دو قدم ایسے رکھنے ہں کہ اس کے سامنے ہو کر اس کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر بڑی بڑی تمیز سے پوچھنا ہے کہ
سر جی اپ کا نام کیا ہے؟
اگر یہ بندہ نام بتا دے تو اس کو اگلے فقرے میں " تو" کہ کر مخاطب کرنا ہے
کہ
جب دو معتبر بات کر رہے ہوں بات کو کاٹو نہیں ۔
اور اگر یہ بندہ نام بتانے کی بجائے
کچھ اور تکنیک دیکھائے تو پسپا  ہو جانا کہ اس کو اس تکنیک کا علم ہے اور یہ بندہ پہنچا ہوا خوشامدی اور بڑی دم والا کتا ہے ، اس کے شر سے بچنے کی کوشش کرنا۔

محفل میں اپنے سے بڑے رتبے کے بندے سے زیادہ بے تکلف نہیں ہونا
جیسا کہ بچے بے تکلف ہو جاتے ہیں ۔
اور بچگانہ ذہن کے لوگ بھی ایسا ہی کرتے ہیں 
اگر چہ کہ ان کی عمر کتنی بھی۔
ایسے کسی بندے سے پالا پڑ جائے کہ تمہاری اعلی ظرفی کو تمہاری کوالٹی کی کمی سمجھ لے یا تم کو "چیپ" سمجھ لے تو؟
تم نے اس کو بات کرنے کا موقع دینا ہے ۔
اور یاد رکھنا کہ سیکس  کے متعلق اور عورت مرد کے تعلق کی باتیں صرف بالغوں کے لئے ہوتی ہیں
اور بچہ لوگ ایسی باتوں کے کرنے کو برا ہونے کا احساس رکھتے ہیں ۔
اس لئے جب بھی اس بندے کے منہ سے کوئی ایسی بات نکل جائے جس میں عورت کا ذکر ہو تو
ایک دم حیرانی کا اظہار کر کے اس کا منہ دیکھنا ہے اور
پھر اس بات کو پکڑ کر
اس کے بد تمیز ہونے اور اس کی بات کو " گندی بات " ہونے کا کر کے اس پر چڑھ جانا ہے اور اس کو جھاڑ پلا دینی ہے۔
"اس" کے گندی بات ناں کرنے کے احساس کو کیش کروانا ہے۔
میرا خیال ہے کہ تم میری بات کو سمجھ رہے ہو ناں؟
دیکھو میں تم کو ایسی باتیں اس لئے بتا رہا ہوں کہ
ہم جو کہ ذیلدار خاندان کی چوتھی نسل ہیں تو ہم کو یہ باتیں نسل در نسل بتائی گئی ہیں
لیکن
تم
جو کہ ایک عام سے خاندان سے اٹھ کر اب ترقی کرنے لگے ہو تو  ، کیا یاد کرو گے  کہ کسی نے بڑے لوگوں کی محفلوں کی تکنیکیں ہی نہیں بتائی تھیں۔

ہفتہ، 8 جون، 2013

چاچا چاپلوس


نام تو اس کا کچھ اور ہی  ہے لیکن اپ اس نام "چاچا" سمجھ لیں ۔چاچے کی عمر اڑتالیس سال ہو چکے ہے اور صحت کی حالت کچھ زیادہ ہے "ماڑی " ہے ۔
چاچے کو دنیا سے بڑا ہی سخت شکوہ ہے کہ دنیا نے اس کی صلاحیتوں  کی قدر ہی نہیں ۔
چاچا ایک شاعر بھی ہے اور نثر نگار بھی ،گلوکار بھی ہے اور ماہر تعلیم بھی بلکہ چاچے کا تعلیم کےساتھ تو کئی نسلوں سے  ناطہ ہے ۔
چاچا انجنئر بھی ہے بلکہ بچپن سے ہی سڑکوں کی تعمیر کا سپر وائزر لگ کیا تھا۔
چاچا ڈاکٹر بھی ہےکیونکہ اس کی کئی کمپوڈروں سے دوستی ہے۔
چاچا جب بھی شعر لکھتا ہے تو پھر کسی کو سنانے کے لئے بے تاب ہو جاتا ہے،
ایک دن اس نے راقم کو شعر سنایا
میں تمہیں پیار کرتا ہوں ، چھوٹے سن سے
کیا تم بھی مجھے پیار کرتی ہو ، کن سن میں ۔
راقم نے سنتے ہی اھ بھر کر کہا کہ اس شعر میں تین بنیادی خامیاں ہیں ۔
یہ بات سنتے ہین چاچا گرم ہو گیا 
کہ کیا 
ردیف قافیہ اور وزن ہی شاعری کا نام ہے؟؟
راقم نے کہا 
نہیں !!!۔
ایک چیز ربط بھی ہوتی ہے۔
چاچے نے گھور کر  کر راقم کرکو دیکھا اور کہا  
یہ نئی بدعت نکل ائی ہے کیا ؟ یہ کیا ہوتا ہے؟
چاچا بہت کچھ بننا چاہتا تھا 
لیکن کچھ بھی ناں بن سکا
چاچے نے شاعری کی کتاب لکھی ۔
خود ہی لکھی خود ہی چپوائی اور خود ہی لوگوں مفت تقسیم کی، بلکہ مبالغہ کرنے والے توکہتے ہیں کہ کسی اور نے پڑہی بھی نہیں ہو گی پڑہی بھی چاچانے صرف خود ہی ہے۔
یہی حال چاچے کی نثر کی کتاب کا بھی ہوا  تھا ۔
اور اپنی ناکامی کی کی وجوہات چاچا یہ بتاتا ہے کہ 
میں نے اج تک کسی کی چاپلوسی نہیں کی اس لئے ترقی نہیں کر سکا
لیکن حقیقت اس کے بلکل الٹ ہے
کہ 
جھوٹ ایسا بولتا ہے کہ جوتوں سمیت انکھوں میں اتر جانے والا۔
کسی "بندے" کو کسی ملک کی مسلم لیگ کا سربراھ بھی لکھ سکتا ہے 
حالنکہ وہ بندہ "اس ملک" میں لوٹا مشہور ہوتا ہے۔
چاپلوسی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے لیکن چاچا کی چیزیں لامحدود ہوتی ہیں۔
چاچا بڑا ٹیکلنیکل قسم کا ڈھیٹھ ہے ۔  "رج" کے کام چور  کہ کام کرنے سے جان جاتی ہے 
لیکن نوکری اس قسم کی چاہتا ہے کہ جہاں تنخواہ جاپان جیسی ہو 
اور کام کوئی دوسرا ہی کرتا رہے۔
لیکن تخیل کی پرواز ہے کہ ہر کام کو اپنے بائیں ہاتھ کا کھیل قرار دیتا ہے۔
چاچا خود کو ماہر تعلم اس لئے کہتا ہے کہ اس کا ابا جی سکول ماسٹر تھا۔
اب جب بھی کسی پرائویٹ سکول کے مالک کو دیکھتا ہے تو دل میں کڑتا ہے اور گالیان دیتا ہے ۔
چاچا خود کو بڑا سیاح بنا کر بھی پیش کرتا ہے 
اصل میں چاچے کو ایک ایجنٹ نے کچھ لوگوں کو "باہر" کی انٹری دلانے کے لئے ساتھ بھیج دیا کرتا تھا۔
جس سے چاچے کو ہر اس بندے پر بھی بہت غصہ اتا ہے جو خود سے "باہر" پہنچ گیا ہو ۔
اور محفلوں میں اس بات کا ذکر کچھ اس انداز میں کرتا ہے کہ
جیسے وہ بندہ بغیر اجازت چاچے کے ملک  میں "کھس بیٹھیا " ہو ۔
چاچا سب کامیاب لوگوں کو گالیان دیتا ہے اور ان کو جاہل فراڈئے اور خوشامدی کہتا ہے۔
اور کہتا ہے کہ بس میرے بھائی ( وہی ایجنٹجس نے دینا کی سیاحت کروائی ہے) کی طبیعت بن جائے ، جس دن اس نے ساتھ دیا میں ان سب لوگوں سے اگے نکل جاؤں گا ۔
اج کل چاچا انٹر نیٹ کا ماہر اور سوشل میڈیا بنا ہوا ہے۔
اس کے متعلق پھر کبھی سہی!!!۔

اتوار، 2 جون، 2013

ڈونر اور ڈونیشن

وہ گوری اپنی بیٹی کے دکھوں کا بتانے لگی کہ
ایک کالے سے شادی کی ہے
لیکن  اس کالے کی ایک اور بھی بیوی ہے
چلو جی مسلمان ملکوں میں دوسری بیویوں کو تو اب برداشت کرنا ہی پڑتا ہے
کہ
میری بیٹی کے دوست بھی کبھی کبھی انگلینڈ سے ملنے آ جاتے ہیں ۔
لیکن
میرا نکما جنوائی  میری بیٹی کو تین بچے تو دے گیا ہے لیکن کمائی بلکل بھی نہیں دیتا ہے۔
اب تو بچوں کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ یہ نکما بندہ ان کا باپ تو ہے لیکن باپ کے فرایض سے بلکل بھی فارغ ہے
اس لئے اب بچوں نے اس کو باپ کہنا ہی چھوڑ دیا ہے
اس نکمے کے بچے اب اس کو ڈونر کہ کر بلاتے ہیں ڈونر!!۔
ڈونر سمجھتے ہو  ناں ڈونر؟؟
میں بھی بس ہنکارے ہے بھرتے رہا کہ اب اس کو کیا جواب دوں ۔
ڈونر کی ڈیفینیشنز کچھ اس طرح سمجھ لیں کہ
گاؤں دیہات میں  جب گائے بھینس کو "لگوانا" ہوتا ہے تو جس بیل کے پاس لے کر جاتے ہیں اس کو ڈونر کہ لیں ۔
کہ اج کل انگریزی میں یہ لفظ کچھ اسی معنوں میں رائج ہے۔
انسانی معاشرے میں یہ ڈونر کا  کام پچھلی کئی دہایوں سے چل رہا ہے۔
اس کی وجہ سے بننے والے مسائل بھی سر اٹھا رہے ہیں اور ان کے حل کا بھی سوچا جا رہا ہے۔
عورت یا مرد  ، جس  کسی ساتھی کی حصیاں کمزور ہوں  اس کے لئے کسی سے ڈونیشن میں خصیاں لے لی جاتی ہیں ۔
عام طور پر ڈونر کوئی مرد ہی ہوتا ہے۔
میڈیکل سائینس کے ایک   ڈاکٹر کو ایک دن کیا سوجھا کہ اس نے اپنے والدین کے ڈی این اے سے اپنے ڈی این اے کا تقابل کرنے کے لئے ٹیسٹ کر لیا۔
ڈی این اے کے گراف میں ماں کے کوڈ میں کئی دفعہ 40 کا ہندسہ اتا تھا جو کہ اس ڈاکٹر کے ڈی این اے کوڈ میں بھی موجود تھا ۔
لیکن باپ والے کوڈ گراف میں جہاں 40 کا یا 41 کا ہندسہ ہونا چاہئے تھا وہاں 10 اور 11 کا ہندسہ تھا ۔
39 سالہ ڈاکٹر کے اعتماد اور فخر کی بنیادیں ہی ہل گئیں
کہ یہ کیا ہوا ہے؟
ڈاکٹر اپنے والدیں سے ملنے کے لئے اپنے گاؤں واپس گیا اور والدیں سے بات کہ کہ یہ کیا ہے؟
تو تب جا کر اس کے والدین نے اس راز سے پردہ اٹھایا کہ
معاملہ اس طرح ہے۔
ایک شخص جس نے ایک بچے کی پرورش اس طرح کی کہ وہ پڑھ لکھ کر میڈیکل سائینس میں ماہر بن کر معاشرے کا ایک مفید فرد بن کر زندگی گزار سکے ، اس کی عظمت کو بھی سلام کہ
اس کو علم بھی تھا کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے
میری بیوی کا بچہ ہے۔
لیکن  اپنی زندگی کی چالیس بہاریں دیکھنے کے بعد اس بات کا افشاں ہونا کہ جس بندے کو باپ سمجھنے کا یقین تھا ، اس بندے کے ساتھ خون کا کوئی رشتہ ہی نہیں ہے۔
ذہنی اذیت ، نفسیاتی مسائل کیا کیا نہیں ہوں گے کہ
عورت اور مرد کے جسمانی تعلق کا تجربہ رکھنے والا ایک تعلیم یافتہ اور ذہین شخص کے دل میں ذہن میں کیا کیا خیالات اتے ہوں گے؟
پاکستان مین اس قسم کے مسئلے پر سوچنا ، لکھنا یا بات کرنا تو دور کی بات ہے
اس قسم کے مسئلے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن ڈونر کے مسائل اس وقت  دنیا میں موجود ہیں ۔
ان مسائل کا حل یا ہمارے معاشرے میں ہونا یا ناں ہونا سے قطع نظر صرف ایک علم کی بات کے لئے یہ بات تحریر کر رہا ہوں ۔
پنجابی کی مشہور شاعرہ امرتا پریتم کا ایک بیٹا بلکل ساحر لدہانوی کی شکل کا تھا
جون ہونے کے بعد اس نے ایک دن اپنی ماں سے پوچھ ہی لیا تھا کہ
ماں اگر میں ساحر انکل کا ہی بیٹا ہوں تو بھی مجھے سچ بتا دو کہ میں شک کی اذیت سے نکل سکوں۔
تو امرتاپریتم نے بڑا شاعرانہ جواب دے کر  بیٹے کو مطمعن کر دیا تھا
کہ
بیٹا ۔ یہ میرا عشق تھا ساحر سے کہ میں اس کے ہی تصور میں ڈوبی رہتی تھی
لیکن میرا اس کے ساتھ جسمانی تعلق کبھی بھی نہیں ہوا
تم میرے تصور کی انتہا ہو کہ  تمہاری شکل ساحر سے ملتی ہے۔

Popular Posts