ہفتہ، 27 ستمبر، 2008

رمضان دوهزار آٹھ

اج کچھ حال بیان کیا جائے گا اس مسجد کا جو واقع هے جاپان کے شہر تاتے بیاشی میں ـ
نام ہے اس مسجد کا مسجد قبا ـ
ناظم هے جو اس مسجد کا شوقین ہے بہت کھانے کا ـ
اور اس سے بھی زیادھ کھلانے کا ـ
ساتھی هیں اس ناظم کے زیادھ تر مہمان نواز اس لیے انتظام هوتا ہے اس مسجد میں جو روزے کی افطاری کا وه اپنی مثال میں نرالا ہے ـ
لگتا هے ایسے که بیٹھے هیں کسی ریستوران میں ، کھانے هیں که ائے چلے جاتے هیں ـ
احوال اس مسجد میں ایک افطاری کا بیان کرتے تصاویر کے ساتھ
دیکھیں اس تصویر کو

نہیں هے یه مورت کسی کریانے کی دوکان یا بھٹیارے کے مکان کی ـ
تصویر هے یه ایک کونے کی مسجد کے باورچی خانے کی ـ
بیٹھا ہے ایک ورکر نام ہے اس کا اصغر سامنے ایک الماری کے جو بھری پڑی ہے مسالوں سے ـ

دیکھیں یه مورت


که پانچ بندے کاٹ رهے هیں صرف فروٹ کو ، دیا جائے گا جو که افطاری میں روزھ داروں کو ـ

نہیں ہے وقت ڈار صاحب کے پاس پوز بنانے کا بھی فوٹو کے لیے ـ

یه هیں جی


پکوڑے چوزے کی ٹانگوں کے ـ

اور

تھاک بھرا ہے پکوڑوں کا کھانے کے لیے روزھ داروں کے ـ


سمو سے هیں که ابھی تلے نہیں هیں مگر جائیں کے پیٹ میں روزھ داروں کے اور باعث بنیں کے جلن کا سینے کی اور روزگار چلے گا ڈاکٹر کا ـ



پیکنگ هو رهی هے مٹھائیوں کی منگوائی گئیں هیں سات سمندر پار کے ملک پاکستان سے که روزھ افطار کریں مومن اور خود کفیل هوں شوگر میں ـ

بانٹ رہے هں ورکر لوازمات افطار کو ـ




ایک منظر یادگاری مسجد قبا کا سال دو ہزار آٹھ کے رمضان کا که روزھ دار بیٹھے هیں انتظار میں افطار کرنے کے ـ


یه ایک ایک تھالی دی گئی هر روزھ دار کو ،
شامل هیں اس میں پکوڑے بیسن کے اور چوزے کے کچھ دانے کھجوروں کے اور نمک پارے هیں اور دسیوں قسم کے فروٹ هیں ساتھ دهی مسالے دار کے ـ
لیکن اگر روزھ دار ختم کرلے اس خوراک کو تو اور لے سکتا ہے
نہیں هے کوئی مضائقه اس بات میں که کھانا بہت ہے ـ

اور یه ہے سارا بیان صرف افطاری کا ، نہیں ہے بیان اس میں اس کھانے کا جو دیا جائے گا بعد تراویح کے ،
تفصیل اس کھانے کی اگر اختصار میں کروں تو هوگا بریانی اور روسٹ گوشت کے ساتھ ، پینے کو هو گا کھوا ملا دودھ جس میں ملائے جائیں گے کچلے هوئے بادام اور دوسرے مغزیات یعنی پسته ، چہار مغز وغیرھ ـ
رب مہربانی کرئے معدوں پر مسلمانوں کے اور دے ان کو پچانے کی طاقت که بسایر خوری میں یکتا هیں زمانے میں یه لوگ ـ

جمعہ، 26 ستمبر، 2008

بخیل سیٹھ

دولت کے پجاریوں کے لیے امیر ادمی دیوتا مانند هوتـےهیں ـ
اور دولت کے پجاری ان کی تعریف میں کافی ایکٹو هوتے هیں ـ
سیٹھ صاحب بڑے چنگے بندے نیں ـ
سیٹھ صاب بڑے دهیالو نیں ـ
نمازیں پڑھ پڑھ کر ان کے متھے پر محراب بن گيا ہے ـ
لیکن
هر نماز میں سیٹھ صاحب ٹوپی تو پہن کر آتے هیں مگر پہلے هی سجدے میں اس کو سر سے گرا دیتے هیں جو که عموماً امام صاحب کی ایڑهیوں کے پاس گرتی هے تاکه باقی کے سارے نمازیوں کو معلوم رہے که سیٹھ صاحب بھی نماز میں کھڑے هیں ـ
ریاکاری بھی دولت کے پجاریوں کو سیٹھ صاحب ک ادا نظر اتی ہے ـ
لیکن اہل نظر کی بات کچھ اس طرح ہے که
سیٹھ صاحب کی ساری فیملی ڈنگروں کی تجارت کرتی ہے
میں بھی ڈنگروں کی تجارت میں انا چاهتا تھا
مگر ڈنگرں کی قیمت کا تعین نہیں کر سکتا تھا
اس لیے میں نے سوچا که اپنے سیٹھ صاحب کو فیملی کے افراد مجھے عرصه تیس سال سے جانتے هیں
اور کافی اچھے لوگ کہے جاتے هیں
ان سے پوچھ لیا جائے تو معلومات دے هی دیں گے ـ
جمعه کی نماز سے فارغ هو کر میں نے سیٹھ صاحبان سے پوچھا که میں بھی اس کاروبار میں انا چاھتا هوں اور مجھے اپ کے تعاون کی ضرورت ہے
اگر آپ مجھے قیمتوں کا تعین کرنے میں مدد کر دیں تو آپ کی مہربانی هوگی
سیٹھ صاحبان نے میری یه بات چلتے چلتے سنی ان سنی کی اور چلتے هوئے گاڑی میں بیٹھ گئے
اور چھوٹے سیٹھ صاحب نے گاڑی کا شیشه کھو ل کر بے دھیانی کی سی کیفیت میں میری طرف دھیان کر کے سنتے رهے ـ
میں نے سمجھا که اپنی مصروفیت کی وجه سے میری طرف دھیان ناں دے سکے مگر سیٹھ صاحب کافی چنگے مشہور هیں
مجھے معلومات دینے میں بخیلی نهیں کریں گے
اس لیے میں جب کہیں ایک ڈنگر خریدنے کے لیے گیا تو میں نے سیٹھ صاحب کو فون کر کے پیچھا که اس طرح کے ڈنگر کی مارکیٹ ویلیون کیا هے ؟؟
تو سیٹھ صاحب نے فرمایا که یه ڈنگر تو هميں لگتا هی نہیں هے
اس لیے کسی اور سے پوچھ لو ـ
اسی طرح کتنی هی دفعه هوا که میں جس ڈنگر کا پوچھتا وهی سیٹھ صاحب کو نہیں لگ رها هوتا تھا ـ
میں نے ان کو کہا که جی سیٹھ صاحب اپ کا اس کاروبار اس علاقے میں کافی بڑا نام ہے
اپ مجھے معلومات دے دیا کریں آپ کی مہربانی هو گي ـ
تو سیٹھ صاحب نے پیچھا چھڑانے کے لیے مجھے کہا که یار تم منڈی جایا کروں ـ
لو جی مجھے سمجھ آگئی که جی سیٹھ صاحب کافی سے زیادھ بخیل واقع هوئے هیں اس لیے میں نے ان سے پیچھنا چھوڑ دیا بلکه کسی بھی معاملے میں ان کوتکلیف ناں دنے کا فیصله کر لیا
مگر
سیٹھ صاحب کو اپنے پیسے کا رعب جمانے کا کافی شوق ہے میں اس بات سے بھی واقف تھا مگر مجھے ان سے
پیسے نہیں معلومات چاهیے تھیں ـ
اب مسجد میں یا پھر کسی دوکان میں ملاقات تو هو هی جاتی هے ناں جی ایک هی علاقے میں رھتے هوئے ـ
میں نے ایک دوکان سے خریدداری کی اور بڑے سیٹھ صاحب وهاں کھڑے تھے
انہوں نے فوراً میري فریداری کی ادائیگی کی پیشکش کر دی جو که میں نے بڑی شائستگی اور سختی سے رد کر دی ـ
لیکن مجھے انسلٹ کا احساس هوا که که سیٹھ صاحب نے میری غریبی کا مذاق اڑانے کی کوشش کی هے
که مجھے جس چیز کی ضرورت تھی وه تو ان کے پاس هونے کے باوجود مجھے دی نهیں اور پیسے خرچ کر کے
لوگوں کی ٹکے ٹکے کا هونے کا احساس دلوارہے هیں ـ
انهی دنوں اپنے مشرف صاحب نے پاکستان میں ایمرجنسی لگا دی
یں نے سیٹھ صاحب سے پوچھا که جی اپ کا کا کیا خیال ہے اس معاملے میں ؟؟
تو جی سیٹھ صاحب نے منه توڑ جواب دیا
اؤے مینوں سیاست وچ کوئی دلچسپی نہیں ہے !!ـ
لو جی گل ای مک گئی
فٹبال ایسوسی ایشن کے صدرهونا تو باکل هی غیر سیاسی عہدھ هو گا
مسجد کی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصه لینا اور ان کی کتنی سیاسی باتیں مجھے یاد آ گئیں
اور میں نے سوچا که جی سیٹھ صاحب انسلٹ کرنے کے بھی کافی سے زیادھ ٹیکنیکل ایکسپڑ هیں ـ
مین نے ان کی ایک اور بات کا بهت مشاھدھ کیا که
که سیٹھ صاحب هر ادمی کو اتنی هی گھاس ڈالتے هیں جتنا وه ان کے لیے کارآمد هو سکتا ہے !ـ
اب سیٹھ صاحب کی اس عادت کی روشنی میں سیٹھ صاحب میرے لیے تو کار آمد بندے هیں نہیں اس لیے میں نے بھی ان کو گھاس ڈالنی چھوڑ دی ـ
ایک دن کا ذکر ہو که جمعه کا روز تھا
جمعه کی نماز کے بعد میں نے مولوی صاحب کو کلفی کھانے کی دعوت دی
مولوی صاحب کے ساتھ ایک اور باباجی بھی تھے انہوں نے کہا که جی کلفی نہیں ہمیں روٹی کھانی ہے
مجھے تو خوشی هوئی که چلو کسی کو کھانا کھلانے کا موقع ملے گا
میں ان بابا جی اور مولوی صاحب کو لے کر ایک دوکان پر چلا گیا جہاں سیٹھ صاحب اپنے کچھ حواریوں کے ساتھ پہلے هی بیٹھے تھے
اب جی سیٹھ صاحب نے کیا کیا که اٹھ کر بڑی گرم جوشی سے تو مولوی صاحب کو ملے اور هم دونوں کو رسمی طور پر
اس کے بعد صرف مولوی صاحب کو اپنی ٹیبل پر ساتھ بٹھانے کی کوشش کی تو میں نے کہا که
جی سیٹھ صاحب
اب جب مولوی صاحب میرے ساتھ ائے هیں تو ان کو میرے ساتھ هی بیٹھنے دیں ـ
بہرحال کھانا کھا کر جب میں بل دینے لگا تو پته چلا که جی سیٹھ صاحب نے پلے هی بل دے کر میرا بچھایا دستر خان ''هائی جیک '' کر لیا ہے
میں نے دوکان دار کو کہا که تم ان کے پیسے واپس کرو میں اپنے پیسے خود دوں گا ـ
لیکن اس بات کا سیٹھ صاحب بھی برا منانے لگے
جب میں نے اصرار کیا
تو فرمانے لگے
که
جب تم اکیلے هو گے تو اپنا بل خود دے لینا ـ
مجھے بڑا دکھ هوا که مجھے یه بھکاری سمجھ رہے هیں جس کو پیسوں کی ضرورت ہے اور کچھ ٹکوں میں اس پر احسان کر رہے هیں
جس چیز کی مجھے ضرورت تھی یعنی معلومات کی اس میں تو یه سیٹھ صاحب انتہائی بخیل واقع هوئے که کہیں خاور بھی کاروبار کر کے پیسے والا ناں بن جائے
که اگر کوئی اور پیسے والا بن گیا تو ان کا فخر ' پیسا '' کسی اور کے بھی پاس آ جائے گا
اور اسطرح تھوڑے تھوڑے پیسے خرچ کر کے دولت کے پجاریوں میں دیوتا بنے بیٹھے هیں
وهاں ایک اور دیوتا کا اضافه پجاریوں کی کمی کا باعث بنے گا ـ
ایک عام ادمی سوچتا ہے که سیٹھ صاحب نے میرے کھانے کا بل دے کر میری عزت افزائی کی ہے مگر مجھے اس بات سے بے عزتی کا احساس هو رها ہے که سیبھ صاب هینڈ کر گئے
کیا خیال ہے جی اپ لوگوں کا بیچ اس بات که که میں غلط هوں ؟؟
بڑی باریک بات ہو یه خود کو ایک خوددار بندے کی جگه رکھ کر جواب دیں که کیا یه ایک معتبر بندے کی انسلٹ نہیں ہے کیا ؟؟؟

بدھ، 10 ستمبر، 2008

اپنے من میں ڈوب

بھگت کبیر کا ایک شعر ہے
تن مٹکی ، من دھی ، سرت بلوھن ھار
کبیرا ماکھن کھا گیو چھاچھ پئے سنسار

جسم کو آگر ایک مٹکا سمجھیں تو دل کو دھی اس جسم کے مٹکے میں دل کے دھی کو ڈال کے عقل کی مدانی سے بلوھنے والے اس واردات کو کرکے مکھن خود کھا گئے اور لسی بیچارے لوگوں کے لیے رھ گئی ـ

میں ذولفقار بھٹو کو پسند کرتا هوں که اس کے دور میں غریب کو اپنی طاقت کا احساس هوا بھٹو بڑا بندھ تھا جی که تن کی مٹکی میں من کا دوھ بھی تھا اور بلوھنے والی عقل بھی اور یارو بھٹو خود تو سولی پر چڑھ کر لوگوں کے دلوں میں زندھ رھ جانے کا ماکھن خود کھا گیا ور اب
باقی بچی لسی اس کو بیٹی نے بھی پی اور اس کا جنوائی بھی پی رها هے
اگر بھٹو کی بلوهی هوئی لسی ناں هوتی تو کیا بے نظیر بے نظیر بن پاتی یا پھر زرداری صاحب کے زر کے طرح داریاں هوتیں ؟؟
اس کے بعد میں پسند کرتا هوں نواز شریف کو که اس کے پہلے دور میں پیلی ٹیکسی اور غریب کو قرضے دینے کے عمل نے لوگوں كو ایک طرح کی اسائیش دیکھائی تھی ـ
بعد میں تو جی بھاری مینڈک نے پھدک پھدک کر وه حال کیا که بقول منو بھائی کے پندرھویں ترمیم کی کوشش میں تھے که امیر المومنین هی بن جائیں ـ
پاکستان میں سیاست چالاکی اور عیاری کا نام بن کر رھ گئی هے
جمہوریت کے معنی هی بدل دیے گئے هیں
الکشن کو تو برداشت هی نہیں کیا جاتا
بس سلیکشن کی بات هوتی هے
اور مزے کی بات ہے که سب سے بڑا بھی اپنی سلیکشن کے لیے امریکه بادشاھ کے سامنے زانو تلمند هوتا ہے ـ
پاکستان کی سیاسی پارٹیاں اپنے اندر عہدوں کی تنظیم کے لیے الیکشن کرواتی هی نہیں هیں ـ
بس جی گدی نشین صاحب (چئیر مین) جس کو سلیکٹ کر دیں وهی وه هوتا ہے جو اس کو بتادیا جاتا ہے ـ

اس دفعه کے ایلکشن کے بعد نواز شریف کی سیاست تو بڑی سیاست تھی که ججوں کی بحالی پر زور دے رہے تھے اور ایک اسی ایشو پر اتحاد بھی بنالیا تھا
جسٹس افتخار چوھدری صاحب کو ریپوٹیشن کچھ انصاف کرنے والے جج کی هے اور هیں بھی !!!ـ
اس لیے نواز شریف کی سیاست تھی که اگر افتخار چوھدری بحال هو جائے تو یه جج خود هی سوموٹو ایکشن لے کر مشرف کا وه ارڈنینس ختم کر دو گا جس کی رو سے زرداری صاحب '' پاک صاف هو گئے هیں ـ
اور اگر ججوں کی بحالی میں زرداری صاحب ٹال مٹول کرتے هیں تو بھی نقصان زرداری صاحب کا که مقبولیت میں فرق پڑے گا ـ
لیکن جی زرداری صاحب چھا گئے هیں
که ان کو معلوم تھا که پاکستان میں مج(بھینس) اس کی هوتی هے جس کے ھاتھ میں ڈانگ(لاٹھی) هوتی ہے
اس لیے انہوں نے اپنے لیے صدر پاکستان کا عہدھ مانگ لیا جی سلیکشن کرنے والوں سے !ـ
صدر جس کے پاس آٹھ ونجوں کی ٹوپی (آٹھونجا ٹو بی) بھی هے ـ
اب جی ساری مجوں(بھینسوں ) پر تو جی ڈانگ والے صدر صاحب کا قبضه هو گيا
باقی سارے اب کہیں کے که میری مج (بھینس) بوری (سفید) تھی ـ
اپنی اپنی مج بوری(مجبوری) کا رونا هو گا
اور کہتے پھریں گے که جی یه هماری مج بوری تھی اور وه اس کی مج بوری تھی پر یارو اب مج کالی هو یا مج بوری ان پر اٹھ ونجوں کی ٹوپی کا اور صدارت کی طاقت کا معامله ہے

کسی بندے نے اپنی ایک فیکٹری پر اپنے سالے کو مینجر رکھا هوا تھا
جو که منافع میں ڈنڈی مارا کرتا تھا
اخر کار جب مالک کو معلوم هوا تو اس نے اپنے سالے کو نوکری سے نکل جانے کا حکم دیا
اور کبھی منه ناں دیکھانے کا وغیرھ وغیرھ
سالا کہنے لگا که جی میں رات کو گھر پر آؤں گا اور باجی کے سامنے اپ سے بات کروں اپنی صفائی میں
رات کو سالا صاحب گھر گئے اور اپنی صفائی میں یه کچھ اس طرح بات کی
که جناب بھائی جان آپ بتائیں که جیسا اپ جانتے هیں میرے پاس اپنی کوٹھی ہے کار ہے ایک بڑا بینک بیلنس ہے
بازار میں کچھ پراپرٹی خرید کر دوکانیں بھی کرایے پر دی هوئی هیں ـ
که هر طرح سے میں ایک خوش حال زندگی گزار رها هوں
اور میں نے یه سارا اپ کی فیکٹری کی کمائی سے هی بنایا هے
اب اکز اپ مجحے نكال دیتے هیں اور ایك نیا مینجر رکھتے هیں تو جناب اس مینجر کو یه سب نئے سرے سے بنانا پڑے گا
اور وه نئے سرے سے ڈنڈی مارے گا
تو جناب اپ مجھے هی مینجر رہنے دیں
که میں اتنی ڈنڈی نہیں ماروں گا جتنی که ایک نیا والا مینجر ـ

تو جی اس حکایت کی روشنی میں دیکھیں تو جی زرداری صاحب کے پاس پاکستان کا دیا سب کچھ ہے اس لیے هو سکتا ہے که اب یه صاحب ڈنڈی ناں ماریں که پہلے هی '' رجے '' هوئیے هیں ـ
سب سے بڑی بات یه هے که فوجی تو نہیں هیں ناں جی ؟؟
لیکن
یارو
امریت سے جان چھوٹی ہے اور استعمار کے پنجے میں پھنس گئے هیں ـ
میری قوم کی بد قسمتی هے که ان کو جمہوریت کی تعریف بھی معلوم نہیں هے ـ
استعمار کو جمہور کے نمائندے سمجھ کر مج بوری کی لسی پئے اونگھ رہے هیں ـ
بس جی میری وی مجبوری اے !!ـ

جمعرات، 4 ستمبر، 2008

فلماں

مرزا صاحباں کا منظوم قصه تو معلوم هی ہے سب کو
جس اخیر اس طرح هوتا ہے که مرزا کو صاحباں کے بھائی جھنڈ کے نیچے جان سے مار دیتے هیں
اس وقت جن مرزا اور صاحباں '' وصل '' لذت اٹھا کر سوئے پڑے هوتے هیں

اس ویڈیو میں شاعر کی سوچ کی پرواز دیکھیں که ان دونوں کا مرنے بعد کا مکالمه لکھ رها ہے
مجھے بڑا اچھا لگا جب مرزا کہتا ہے که
اگر میرے بھٍ بھائی ساتھ هوتے تو میں بھی موت کو مذاق کرتا ـ


یملا جٹ کا وه مشہور گانا جو هر پنجابی نے عمر کے کسی ناں کسی حصے میں سنا هو گا
دس مین کی پیار وچوں کھٹیا ؟؟
اسی گانے کو بڑھاپے ميں کاتے هوئے جٹ کی سانس ساتھ نہیں دیتی که لے کو اٹھا سکے مگر
مزا اگیا
یملا جٹ



شیو کمار بٹالوی پنجابی کے ایک درد بھے شاعر
پاک بنجاپ مین ان کو کم هی لوگ جانتے هیں
لیکن اس بات سے شیوکمار کی عظمت پر کوئی فرق نہیں ہے



لو جی اے ایک گانا ہے کهشاید هی آپ نے سنا هو گا
پنجاب کا ایک یه بھی رنگ هے روشن خیال سا
گانا سارا سننا ہے

Popular Posts