جمعہ، 6 جنوری، 2017

عزت اور غیرت


چاچے فرید کی دوکان پر چاچا عنایت مستری اگلے ویہڑے والا یہ بات بتا کر کہتا ہے
کہ
یقین کرو جی ایک بدمعاش کے منہ سے سنی یہ بات کئی دہائیاں بعد بھی میں نہیں بھول سکا
اور ساری زندگی نہیں بھول سکوں گا کہ ایک بدمعاش ہو کر اس نے کیسی دانش کی بات کی،۔
چاچے عنائت کے اس اخری فقرے کی وجہ سے مجھے بدمعاشوں والا یہ واقعہ یاد رہا ہے
کہ آج مجھے یہ بات سنے کوئی چالیس سال ہو گئے ہیں
لیکن اج بھی مجھے چاچے عنائت کا بات کرنے کا وہ دھیما سا انداز اور چہرہ ایسے لگ رہا ہے کہ چند لمحے پہلے کی ہی بات ہو جیسے !!،۔

ذیلدار چوھدری صاحب  کے ڈیرے پر  علاقے کے سارے بستہ بے کے بدمعاشوں کو  ہر مہینے حاضری دینے کا حکم تھا ،۔
یہ حکم تو سرکار برطانیہ کے دور سے تھا لیکن پاکستان بننے کے بعد بھی  ہم نے اپنے چوہدریوں کے ڈیرے پر بستہ بے کے بدمعاشوں کا جھرمٹ دیکھا ہے ،۔
یہاں پیپل کے نیچے والے کنوئیں کے پاس ہی چوہدری صاحب کی چارپائی ہوتی  تھی اور گاؤں کے  کمی  لوگوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے زمیندار بھی یہیں دریوں پر بیٹھا کرتے تھے
کسی کو چوہدری صاحب کی غیر موجودگی میں بھی منجی پر بیٹھنے کی جرات نہیں ہوتی تھی ،۔
جس دن بدمعاشوں  کی حاضری ہوتی تھی
گاؤں کے لڑکے بھالے تماشہ دیکھنے یہاں اکٹھے ہو جایا کرتے تھے ،۔
طرح طرح کے حلئے ، تہمند کے لڑ چھوڑے  بڑی بڑی مونچھوں والے اگر ہوتے تھے تو مریل مریل سے بکری نما داڑہی والے بھی ہوتے تھے ۔
عام سے حلئے کے  سر پر صافہ باندھے  تہمند قمیض میں  چہرے پر بے چارگی سجائے بیٹھے ہوئے یہ لوگ اپنے اپنے میدان میں اپنی ایک دہشت رکھتے تھے ،۔
یہاں چوہدریوں کے ڈیرے پر پہنچتے ہی گربہ مسکین کی ایکٹنگ کر رہے ہوتے تھے ،۔
دو بد معاش اپس میں باتیں کر رہے تھے
میں بھی کان لگا کر سننے لگا
جو بات انہوں کی میں یہ بات ساری زندگی نہیں بھول سکتا کہ
ایک بد معاش ایسی دانش کی بات بھی کر سکتا ہے ،۔
لڑکپن کے ان دنوں میں ہمارے ذہن میں یہی ہوتا تھا کہ  ایک بد معاش میں اگر دانش ہوتی تو
وہ کوئی معقول معاش کیوں نہ اختیار کرتا ، بد معاشی کی ہی کیا ضرورت تھی ،۔
لیکن ان بد معاشوں کا یہ مکالمہ میں ساری زنگی نہیں بھول سکتا ،۔
ایک بدمعاش دوسرے سے کہتا ہے
اؤئے تم مجھے اپنی بیوی کچھ دن کے لئے دے دو !،۔
دوسرا اس کی بات کو سن کر نظرانداز کر دیتا ہے ،۔
میں سوچتا ہوں ایسا مطالبہ کوئی کم عقل بدمعاش ہی کر سکتا ہے ،۔
کہ اس بدمعاش نے دوسرے بار اپنی بات کی تکرار کی
تو
 سننے والے بد معاش نے اس کو کہا
اوئے ڈنگرا ، بیوی بندے کی عزت ہوتی ہے ، اور کوئی بھی انسان اپنی عزت دوسروں کو نہیں دیتا ،۔
بہن بیٹی اور ماں بندے کی غیرت ہوتی ہیں ،۔ اپنی غیرت کو لوگ جانتے بوجھتے رشتے بنا کر دوسروں کو دیتے ہیں ،۔
لیکن اپنی عزت کوئی کسی کو نہیں دیتا ،۔
عزت اور غیرت کے فرق کا یہ باریک سا فرق  کم ہی لوگوں کو علم ہوتا ہے ،۔
مجھے تو چاچے عنایت کی اس روایت کے سننے کے بعد ہی  غیرت اور عزت کا مفہوم ملا تھا ،۔

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts