بدھ، 9 ستمبر، 2015

حاجی خوشی محمد پہلوان

حاجی صاحب تو  وہ بہت بعد میں جا کر کہلوائے تھے  ، انیسو ستر  میں حج کیا تھا انہوں ، ۔
اس سے پہلے ان کو  لوگ پہلوان کہا کرتے تھے  ، پہلوان خوشی محمد اور ان کا بھائی تھا پہلوان اللہ لوک برادی کے دوسرے لوگوں کو ساتھ ملا کر بڑے مضبوط کاروباری تھے  یہ لوگ ، تقسیم سے پہلے کے زمانے میں  ۔
ہتھ چھٹ  بھی تھے اور بیدار مغز بھی ۔ جیب میں پیسے تھے اور افرادی قوت بھی ۔
برادری خچروں اور گھوڑوں کی تعداد اس زمانے میں ان کے ہی پاس  سب سے زیادہ تھی ۔
جنس کا سودا مار کر  کسی کاروباری رقیب کی پہنچ سے پہلے  پہلوان خوشی محمد کے بھائی  خچروں اور گھوڑوں پر مال لادہ کے نکل بھی چکے ہوتے تھے ۔
پہلوان خوشی محمد کے گھوڑے کی چھٹ میں چاندی کے سکے ہوتے تھے  جو  ادائیگی زمین دار کے گھر جا کر کرتے تھے ۔
تلونڈی سے جمون کا سفر  ایک دن کا ہوتا تھا  ، ایک دن جانے میں اور ایک دن آنے میں ،۔
یہاں سے کندم اور چاول کے کر جاتے تھے اور وہاں سے سرخ بیر خرید کر لاتے تھے ۔
برادری کے کئی لوگ جن کے پاس گدھے تھے وہ ادھر جموں میں ہی ہفتوں تک جاتے تھے کہ باربرادی کام بہت تھا ۔
خچر اور گھوڑوں والے  مال لادہ کر گھر لوٹ آتے تھے ۔

ڈرپ کا علاقہ  (پسرور کے شمال مشرق ) پانی کی کمی کے لئے مشہور تھا ۔ کہیں کہیں کنویں تھے اور پانی بھی بہت گہرا تھا کہ رہٹ والے کنوئیں سے پانی نکالنے والے بیل بھی بوجھ سے ہانپ ہانپ جاتے تھے ۔
رہت میں بیل جوتے  پانی نکالتے زمینداروں سے ہاتھا پائی  کر کے جانوروں کو پانی پلانا ایک معمول تھا ۔
ایک دفعہ ، پہلوان خوشی محمد سیالکوٹ سے پیدل گاؤں آ رہے تھے کہ جیسا اس دور میں معمول تھا  کھیتوں کے منڈیر اور پہہ ہی راستے ہوتے تھے ۔
سورج کے رخ سے سمت کا تعین کر کے جو بھی راہ شارٹ کٹ لگتی تھی اس پر چل نکلتے تھے ،۔
ایک جگہ پہہ پر چل رہے تھے کہ کسی کھوھ پر زمیندار نے ان کو کہا کہ اس پہہ پر نہ جاؤ ،اگے ایک ناگ اس راھ پر ہوتا ہے ، لوگوں نے یہ راھ استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے  ۔
لیکن پہلوان خوشی محمد یہ کہہ کر کہ  “سپ شینہ ، فقیر دا دیس کوئی نہ”  اس کسان کی بات نہیں مانی ۔ ان کا خیال تھا کہ اگر سانپ ہو گا بھی تو  وہ کوئی گھر بنا کر وہیں تو نہیں  پڑا ہو گا ، کہیں نکل گیا ہو گا ۔
لیکن ہوا یہ کہ  وہاں واقعی سانپ تھا ور بہت بڑا سانپ تھا ۔
اس اژدہے نما کو دیکھ کر پہلوان جی پر دہشت طاری ہو گئی ، لیکن بھاگنے کی جاء نہیں تھی اس لئے لاٹھی سے اس کے سر پر وار کیا ، اژدھے نے بھی بل کھا کر پھن مارا ۔ پاس ہی کہیں کوئی اینٹ روڑوں کی ڈھیری تھی  ، جس پر چڑھ کر  پہلوان جی نے پتھر  پکڑ پکڑ کر اژدھے کو مارنے شروع کئے  ایک جنون تھا کہ بس مارے ہی چلے جاتے تھے ، پتھروں کے نیچے دبے  اژدھے کی دم ہلتی رہی  ۔
کہ حاجی صاحب  بے ہوش ہو کر گر گئے ۔
وہ کسان جس نے ان کو منع کیا تھا  وہ کچھ لوگ ساتھ لے کر اس راھ پر ان کو دیکھنے پہنچ گیا ۔
جن لوگوں نے پہلوان جی کو  اٹھا کر  نزدیکی  قصبے ،  جہاں خقش قسمتی سے اس زمانے میں بھی کوئی ڈاکٹر صاحب موجود تھے  ، ان کے پاس پہنچایا ۔
پہلوان جی کو دو دن بعد ہوش آیا  اور پانچ دن بخار میں سلگتے رہے  ۔
ڈاکٹر صاحب نے ان کا علاج کیا ور ان کو انعام میں ایک رویہ دیا کہ تم نے سانپ کو مار کر راستہ صاف کردیا ہے ۔
برادری میں  ایک لڑکے کی منگنی ڈسکے کے کسی گاؤں میں ہوئی تھی
کہ عین شادی سے کچھ دن پہلے  لڑکی والے مکر گئے  ،
پہلوان جی اپنے بھائیون کے ساتھ  گھوڑوں پر بیٹھ کر گئے اور اس لڑکی کے گھر والوں کو کہا
کہ لڑکی  ہماری منگ ہے ۔
جب منگنی میں تم لوگوں نے یہ لڑکی ہم کو دے دی تو اب یہ ہماری عزت ہے  ۔
ہم اس لڑکی کو لینے آئے ہیں ۔
اگر کسی میں جرات ہے تو ہمیں روک لے ۔
لڑکی کو کہا کہ اپنا سامان  کپڑے جو تم اس گھر سے لینا چاہتی ہو  ساتھ لو اور گھوڑے پر بیٹھو ۔
لڑکی گھر والون سے  گھر سے نکلتے ہوئے  کہا کہ
اگر اپنی بیٹی کو ملنے آؤ تو ست بسم اللہ  تم لوگ ہمارے رشتہ دار ہو
لیکن اگر لڑئی کے لئے آؤ گے تو لاشیں اٹھانے والے بندے ساتھ لے کر آنا ۔
لڑکی  کو ساتھ لا کر  بڑے شگنوں کے ساتھ اس کا نکاح  اس کے منگیتر کے ساتھ کیا ۔
اس بی بی کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں ۔
یہ بی بی  بڑی لڑاکا عورت تھی  ، اتنی لڑاکا کہ اس کا خاوند   جلدی ہی گزر گیا تھا ۔
اس کے بعد  برادری کی عورتوں سے اس کی لڑائی ختم ہی نہیں ہوتی تھی  ۔
اس کے جب کوئی پوچھتا تھا کہ تم اتنی لڑاکی کیوں ہو تو بڑے فخر سے بتایا کرتی تھی ۔
میرا میکہ بھی بڑا بہادر تھا ۔
میں بڑی لڑاکی ہوں ۔
کئی دفعہ اس کی لڑائی میں پہلوان خوشی محمد اگر پہنچ گئے تو  ؟
لاء لتر لیا اور  بہت پھینٹی لگاتے تھے  ، حاجی صاحب کی پھینٹی کے بعد بی بی بہت  بھلی مانس بنکر بیٹھ جاتی تھی ۔
اور ترس کھا کر آنے والی برادری کی عورتوں کو بتایا کرتی تھی ۔
یہ بڑے بہادر کمہار ہیں ، میرے لڑاکے میکے  سے مجھے ڈنکے کی چوٹ پر اٹھا لائے تھے  ،۔
ان سے کوئی نہیں نپٹ  سکتا  ،۔
اور حاجی صاحب کہا کرتے تھے اس  زنانی کی کوئی ہڈی “لوندی “ ہے  جدوں تک مار نہ کھا لے  اینہوں سکون ای نئیں اؤندا !!!۔

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts