جمعہ، 23 اگست، 2013

مامور فرشتے

وہ جو میرے حفاظت پر مامور ہے
وہ
دہشت  گردوں پر صرف نظر رکھتا ہے ۔
وہ جو میری سرحدوں کا محافظ ہے
وہ
ڈورون حملہ آوروں کا سٹریجک پارٹنر ہے ۔
جی ہاں میں اسی کی بات کر رہا ہوں جو
خود نمائی میں یکتا ہے
اور میرے لوگوں کو غائب کر کے ان کو مار دیتا ہے
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/08/130822_karachi_dead_bodies_rh.shtml
وہ جو میری حفاظت پر مامور ہے ۔
دشمن کے حملے میں تباھ ہوجانے والے کسی شہر  کی کسی  گر نہ سکنے والی چمنی پر بیٹھے
اس چیل کی طرح میری حفاظت کا فریضہ انجام دے رہا ہے
جس کی نظر مردار پر ہے کہ
رقبوں اور پلاٹوں پر ؟
وہ جو میری عزتوں کے تحفظ کے دعوے کرتا ہے
وہ
شہوت کی سپلائی میں مصروف ہے۔
ہاں جی ہاں وہ فرشتہ ہے
میں ہی "کملا " ہوئے جا رہا ہوں ۔
وہ جو میری حفاظت پر مامور ہے
وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!۔

بدھ، 21 اگست، 2013

میری یادوں اور خوابوں کا پاکستان


میرے خوابوں کا پاکستان ، میں یہ نہیں لکھوں  گا کہ میں نے پاکستان کو کیسا بننے کا خواب دیکھا
میں کون سا علامہ اقبال ہوں کہ مستقبل کے خواب اور وہ بھی پاکستان کے مستقبل کے دیکھوں ۔
میرے خوابوں کا پاکستان  ہے ، میری یادوں کا پاکستان ۔
پاکستان ہمارے پیدائش سے پہلے بن چکا تھا۔
بڑے سہانے دن تھے جب ہم نے ہوش سنبھالا۔
اکہتر کی جنگ کی یادیں اتنی ہیں کہ ایک جہاز آتا تھا اور تڑ تڑ کرتی گولیاں برساتا نکل جاتا تھا۔
گولیاں کدھر جاتی تھیں اس کی سمجھ نہیں لگتی تھی۔
یا کہ اس جہاز پر مشین گن سے ہونے والی فائرنگ کی ٹر تڑ ہوتی تھی۔
لوگ بھالے تماشا دیکھنے کے لئے چھتوں پر چڑہے ہوتے تھے۔
ساتھ کے گاؤں کو جاتی کچی سڑک میں پانی کھڑا ہوا تھا جہاں کہ پانی والی بوٹی اگ آئی تھی۔
اس خشک ہوتی بوٹی پر پاک فوج کی مشین گن لگی تھی جو کہ میں اپنے یار یوسی ( یوسف لوہار) کے ساتھ دیکھنے گیا تھا۔
ہمیشہ کی طرح کاکا بجلی والا بھی ساتھ ہی تھا شامل باجے کی طرح۔
اس زمانے کی ساتھ کے دیہاتوں کو جاتی کچی سڑکیں  ، سڑکیں کم اور خشک کھال سے ہوا کرتے تھے۔
ہمارے گاؤں کے شمال کی طرف کی سڑک جس کو پنجابی میں "پہے یا پیاہ" کہتے ہیں ۔یہ بھی ایک کھال ہی کی طرح کا ہوتا تھا ، جس میں گاؤں کا بارش کا پانی بہ کر آوے(مٹی نکال کر بنے گڑھے) تک جاتا تھا ۔
جنوب کی طرف کا  پیاہ بھی اسی طرح تھا۔
اور ایک پیاہ ہوتا تھا ملک والے والا، ملک والا تھا تو ایک کنویں والا ڈیرہ  لیکن اس کے نام پر اس  پیاہ کو بلایا جاتا تھا ۔
یہ پیاہ بڑا اہم تھا کہ جب بھی اگست کا سیلاب اتا تھا تو گاؤں کے شمال اور شمال مشرق کی طرف سے پانی کے ریلے اتے تھے ،جو کہ کمہاروں کی حویلیوں کو پانی پانی کر جاتے تھے ۔
اور یہ پانی بہتا ہوا ملک والے پیاہ میں سے گزر کر سائفن تک جاتا تھا اور سائفن کو پار کرکے اپنی اگے کی منزلوں کی طرف رخ کرتا تھا۔
پھر ہم نے دیکھا کہ پیاہ ، سڑکیں بننے لگے سڑک بنانے کے لئے پہلے ان پیاہ کو مٹی ڈال کر اونچا کیا گیا۔
جس سے مکان نیچے ہو گئے
مکانوں کے پانی سے سڑک ٹوٹ گئی۔

ملک کی سیاست اور حکمرانوں نے ہم ہر احسان کر کے سڑک دوبارہ بنا دی
لیکن وہ پلیان جو جو پیاہ اور سڑکوں کے نیچے سے پانی کی گزرگاھ کے طور  پر انگریز نے بنا کر دی تھیں وہ ختم کر دی ۔
یا کہ پلیان بنانے جیسے کمتر کام کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا۔
اور اب یہ حال ہے کہ بقول شخصے جب انڈیا پانی چھوڑتا ہے 
تو
گاؤں کے گاؤں دیہات پانی میں ڈوبے ہوتے ہیں 
اور لوگ بھالے سڑک کر توڑ کر پانی کا راستہ بنا رہے ہوتے ہیں 
اور 
گاؤں میں سے کسی کسی کو یاد بھی ہوتا ہے کہ یہاں ہی تو وہ پلی تھی جس میں سے پانی گزرتا تھا سیلاب کے دنوں میں ۔
اور عام دنوں میں لڑکے کھیلا کرتے تھے ان پلیوں کے نیچے ۔
میری یادوں کے  پاکستان میں لڑکے پلیوں کے نیچے سے گزرنے کا کھیل یا انکھ مچولی میں چھپنے  کا کھیل کھیلا کرتے تھے۔
لیکن 
اب اگر کہیں کوئی پلی ہے تو
لڑکے اس میں بندوقیں لے کر چھپ کر بیٹھے ہوتے ہیں 
اور رات کو شہر سے واپس انے والے مسافروں کی جیبیں  خالی کرواتے ہیں ۔
بھٹی بھنگو سے نندی پور جانے والی پلی ہو کہ میانوالی بنگلا کی نہر کی راجباہوں پر بنی ہوئی پلیاں ہوں ۔
سیلاب کے پانی کے کام تو کم ہی اتی ہیں 
ہاں بہادر لڑکوں کو کارنامے دیکھانے کے مورچے کے طور تو کام اتی ہی ہیں ۔
ہمارے بچپن کا زمانہ تھا کہ کہیں کہیں کسی چور کا سنتے تھے کہ فلاں بندہ جو ہے وہ چور ہے
اور علاقے کے سبھی لوگ اور تھانے والے بھی اس کو جانتے ہوتے تھے۔
گھروں کے درمیاں چھوٹی چھوٹی سی دیواریں ہوتی تھیں۔ جس نے پڑوسی ناں صرف جھانکتے تھے بلکہ پڑوسیوں کی زندگیوں میں دخیل ہوتے تھے۔
لیکن کوئی اس دخل اندازی کو مداخلت نہیں محسوس کرتا تھا۔
پھر دیواریں اونچی ہوتی گئیں ، پرائویسی بڑہتی گئی اور معاشرے سے برداشت کا مادہ ہی ختم ہوتا چلا گیا۔
گرمیوں کی راتوں میں چھت پر سونا یا پھر گلی میں نکل کر چارپائی بچھا لینا عام سی بات تھی ۔
باہر ، تہمند باندھے چارپائی پر سوئے بندےکے ساتھ ایسی واردات ہو جاتی تھی کہ اس کا تہمند کھول کر پائنتی پر ڈال کر کوئی شرارت کر جاتا تھا
تہجد کی نماز کے لئے گزرنے والا کوئی بابا ، اس کو جگا کر " نگیز" ڈھانپنے کا کہتا تھا۔
بڑی شرمندگی ہوتی تھی اس واردات کے "وکٹم" کو کہ فارغ لوگوں کو کوئی کام بھی تو نہیں ہوتا تھا ناں 
ایسی باتوں کو مذاق بنا کر انجوائے کرنے کے علاوہ ۔
شاہراہ عام پر سوئے کسی بندے کو یہ دھڑکا نہیں ہوتا تھا کہ کوئی سوتے میں قتل کر جائے گا یا کہ جیب خالی کر کے لے جائے گا ۔
پھر وہ مشہور زمانہ واردات ہوئیں 
جن کو ہمارے زمانے کے لوگ ہتھوڑا گروپ کی وارداتوں کے نام سے جانتے ہیں ۔
سوتے میں سر پر ہتوڑا مار کر کئی قتل ہوئے ، 
اور چارپائیاں دیواروں کے اندر چلی گئیں۔
گرمیوں کی راتوں میں کھیلتے کھیلتے ساتھ کے گاؤں تک چلے جانا کوئی خاص بات نہیں تھی۔
کسی کو بھی اس بات کا خطرہ نہیں ہوتا تھا کہ  کہیں ڈاکؤں کا " ناکہ" لگا ہو گا ۔
ہاں ڈر ہوتا تھا تو کیڑے مکوڑے کا کہ سانپ گرمیوں ہی میں نکلتے ہیں ۔ 
لیکن رات کو سانپ کے ڈسے کی موت کا میں نے تو اپنے علاقے میں سنا نہیں ۔ 
ہاں لیکن ایسا گر کہیں ہوا بھی ہو تو عجب نہیں ۔
تربوز اور خربوزے کے کھیتوں میں چوری  کرتے لڑکے اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ اتنا ہی مال توڑا جائے کہ جتنا کھا لیں ۔
ناں کہ اجاڑ ڈالیں ۔
اور باڑے کے رکھوالوں کو بھی علم ہوتاتھا کہ کس کس کے بچے اج تربوز یا خربوزے کھا کر گئے ہیں ۔
باڑے کا رکھوالا ، للکارا مارا تھا
کون او تسی!!۔
اور لڑکے بھاگ  جاتے تھے۔
اگلے دن ان لڑکوں کے والدین اطلاع مل جاتی تھی اور " پنشمنٹ " لڑکے کے ابا جی کر لیا کرتے تھے ۔
باڑےکے رکھوالے کو بندوق کے زور پر باندہ کر خربوزے کھانے کا رواج تو بہت بعد میں ایا تھا جی ۔

ہفتہ، 17 اگست، 2013

فوٹواں اور یاداں



یہ فوٹو مجھے ماضی کی یادوں کے ایک سیلاب میں غرق کر گئی ۔ چالیس سال گزر گئے ۔
چہروں پر عمر رفتہ کے ظالم ناخنوں کی خراشیں ہیں ۔ اور سروں میں خواری کی دھول کی سفیدی نظر اتی ہے
اور جس کے بال سفید نہیں ہیں ،
اس کالک میں بدنامیوں کی کالک لگی کالک جھلکتی ہے۔
قبرستان کے ساتھ چوکھنڈیاں بنی ہیں ۔
کسی پیر فیملی کی یاد میں ہاڑ کے مہینے کی آٹھارہ کو میلا بھی لگتا ہے ۔
لیکن یہیں میرا پرائمری سکول بھی ہے ۔
اب شائد سکول محدود ہو گیا ہے
لیکن میرے بچپن میں یہ سکول جہاں چھاؤں دیکھی ، وہیں جماعت بیٹھا دیتے تھے اساتذہ کرام ۔
انیس سو ستر سے انیس سو پچھتر تک میں اسی سکول میں پڑھتا تھا ۔
ماسٹر اقبال صاحب اور ماسٹر لطیف صاحب باورے والے مجھے بڑی اچھی طرح یاد ہیں اور کچھ اساتذہ کے دھندلے نقوش۔
IMG_0295قبروں کا مجاور ہوتا تھا ، سائیں غفور جو کہ سانپوں سے کھیلتا تھا۔بدھ کے دن یہ سائیں "پھیری" پر نکلتا تھا۔
ہر گھر کے دروازے پر اس نے ایک مخصوص صدا دینی ہوتی تھی۔
جس صدا میں کوئی التجا نہیں ہوتی تھی کوئی بھیک مانگنے کا تاثر نہیں ہوتا تھا ۔
ہر گھر سے سائیں غفور کو کچھ ناں کچھ مل ہی جاتا تھا۔
یہ "کچھ" نقدی کم اور اناج زیادہ ہوتا تھا۔
میرے دوسری جماعت کے دنوں میں اس سائیں غفور نے شادی بنا لی تھی اور ایک فربہ سے خاتون کو کہیں سے لے ایا تھا۔ جو کہ سائیں کے لئے مخصوص کمرے میں مغربی دیوار کے ساتھ کچھ پردے لگا کر رہنے لگی تھی ۔
لیکن چند ماہ ہی ہوئے کہ یہ خاتون فوت ہو گئی تھی ۔
جس کی قبر ہماری جماعت کے بیٹھنے والے پلاٹ کے بلکل ہی ساتھ بنادی گئی اور سائیں غفور نے اس قبر کو پکا بھی کردیا تھا ۔
مجھے یاد ہے کہ ہم لوگ اس قبر کو بنچ کے طور ہر اور کرسی کے طور پر کہ ایک تھڑے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔
پہلے پہل تو سائیں غفور منع کرتا تھا لیکن پھر یہ قبر ہم آزادی سے استعمال کرتے تھے ۔
سائیں ٖغفور کے ساتھ ایک اور کردار کا ذکر ناں کرنا تلونڈی کی تاریخ کے ساتھ بے ایمانی ہو گی۔
وہ کردار تھا منشی گولے یاں والا!!۔
کھوئے والے برف کے گولے بنانے والا منشی ، جو کہ باورے سے ہمارے گاؤں تلونڈی ، برف کے گولے بیچنے آتا تھا۔
منشی اپنا سائیکل کوٹھی کی دیوار کے ساتھ کھڑا کرتا تھا۔
ٹھیک اس جگہ جہاں اب "عبدلہ شاہ غازی " نامی ارشد کھوکھرعرف بلے کا سٹور ہے اس کے دروازے کے سامنے۔
سائیں غفور اور منشی گولیاں والے سگے بھائی تھے۔
سائیں غفور درویش ہو گیا اور دوسرا بھائی اپنا سا کاروبار کرتا تھا ۔
یہاں قبرستان میں جہاں سائیں لوک بھنگ چرس وغیرہ کا شغل کرتے اور ان کے پاس ہی پرائمری سکول کی کلاسیں لگتی تھی ۔
لیکن معاشرے میں ایک توازن پایا جاتا تھا ، بچوں اور بھنگیوں کی حدود متعین تھیں ۔
کیسے؟
میں اج اپنی بچپن کی یادوں کے سہارے لکھنے کی کوشش کرتا ہوں
اس تحریر میں کچھ بزرگوں کے نام آئیں گے ، یہ وہ لوگ تھے جن کی بنائی ہوئی روایات اور رسوم کی وجہ سے تلونڈی میں نشئی لوگ اور معزز لوگ ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے متاثر نہیں ہوتے تھے۔
جن لوگوں میں اج بزرگ لکھ رہا ہوں ، ہمارے بچپن میں سبھی اپنے زمانے کے جوان تھے۔
لیکن نشے کے خلاف تھے ۔
چوہدری مرید حسین تھانیدار ، چوہدری منظور مرزائی ۔بابا سکندر یہ لوگ اور کئی معزز لوگ تھے جو کہ ان سائیں لوگوں کے پاس ہی بیٹھا کرتے تھے۔
اور یہاں " پاشا" کے کھیل کے میچ ہوا کرتے تھے۔
حقہ کشید کرنے کے شوقین بھی کزرتے ہویئ بیٹھ جایا کرتے تھے ۔
لیکن یہ معزز لوگ کسی بچے کو یہاں ٹھرنے نہیں دیا کرتے تھے
اگر کوئی بچہ کھڑا ہو کر سائیں لوگوں کی ایکٹویٹی کو غور سے دیکھنے لگتا تھا تو
بزرگ لوگ اس بچے کو جھڑک کر دور کردیا کرتے تھے۔
یہ وجوہات تھیں میرے گاؤں کے لوگوں کی نشے سے دور رہنے کی ۔
بہت بعد میں غالبآٓ انیس سو پچانوے میں ، میں اور مظہر سنیارا اور تاری مرزائی یہاں گزر رہے تھے کہ سائیں سلوکی کو آگ دھکاتے دیکھا تو اس کو آگ دیکھانے میں مدد کرنے لگے۔
سائیں سلوکی چائے کا قہوہ بنا رہا تھا۔
جب قہوہ تیار ہو گیا تو اس نے اس قہوے کو المونیم کے ٹیڑھے میڑھے "کول" میں ڈال کر چسکیان لینی شروع کیں
اور دعوت کے انداز میں ہم سے پوچھا کہ " پینی اے"؟؟
تاری مرزائی کا جواب اس کے گھر کی اس کی تربیت کا ایک اعلی ثبوت ہے ۔
تاری نے کہا
کہ اس ڈیرے کا تو سونے کا نوالی بھی ہو تو منہ میں نہیں ڈالنا!!!۔

IMG_0296 IMG_0295 IMG_0301 IMG_0300 IMG_0299 IMG_0298 IMG_0297 IMG_0296 IMG_0295 IMG_0294 IMG_0292

جمعہ، 16 اگست، 2013

چودہ، پندرہ آگست

پندرہ آگست!۔ جاپان میں  شہیدوں کو یاد کرنے کا دن ہے ۔
دوسری جنگ عظیم کے شہیدوں کو فوجی اور غیر فوجی شہیدوں کو یاد  کرتے ہیں ، ۔
جاپان کے شہیدوں کو شہید لکھنے پر  ، اگر کسی " شدید " قسم کے مسلمان کو اعتراض بھی ہو تو ، میں جنگ عظیم دوم میں جان دینے والوں کو شہید ہی لکھوں گا
کہ
جاپانی شہیدوں کی جنگ میں دی  جانے والی جانیں رائگاں نہیں گئیں ۔
یاد رہے کہ جاپان ، دوسری جنگ عظیم میں " جنگ " تو  ہارا تھا "لڑائی " نہیں یارا تھا۔
بہادر جاپانی ہر محاذ پر ڈٹے ہوئے تھے  ۔
جنگ میں جانیں دینے والوں کو ، یاد کرنے ان کی تربتوں پر اگربتیاں جلانے   جاتے ہیں ، زندہ اقوام اپنے شہیدوں کے مرنے کی وجوہات بھی جانتی ہیں اور شہیدوں کے مقاصد کو بھی یاد رکھتی ہیں ۔
سائبیریا کے جنگی قیدی !۔
وہ جاپانی فوجی جو کہ جنگ ہارنے پر سائبیریا میں روس کے جنگی قیدی  بنے ۔
ان میں سے بہت سے وہ بھی تھے جو زندہ گرفتار ہوئے لیکن کبھی بھی وطن واپس نہیں پہنچ سکے ۔
جو زندہ تھے ان کو وطن واپسی کی لگن تھی ۔
اور جو وطن میں ان کا انتظار کر رہے تھے
وہ
وہ ملک کو اس قابل بنانے میں لگے تھے کہ ملک کے لئے خدمات ادا کرنے کی کوشش میں اذیت میں مبتلا ، جب واپس  آئیں تو ان کو مایوسی ناں ہو ۔
اور جنگ کے خاتمے کے دس سال بعد جاپان ، دنیا کے درجنوں ممالک  کے مقابلے میں ایک پر آسائش اور محفوظ ملک تھا
اور جنگی قیدیوں کے واپس پہنچنے کے بعد کے دس سال میں جاپان ، دنیا میں ایک نام تھا ، معیار کا اعتماد کا نظم  ضبط کا ۔
تقسیم ہند کے دن کو پاکستان میں چودہ آگست اور ہند میں پندرہ آگست کے روز منایا جاتا ہے۔
لیکن اس تقسیم میں شہید ہونے والوں کو کس طرح یاد  کرتے ہیں ؟
ہم لوگ!!!۔
جشن منا کر!!!۔
جن کے لئے پاکستان کا قیام رقبوں پر ، پلاٹوں پر قبضے کرنے کی آزادی کا نام تھا
ان کا جشن منانا بنتا ہے
لیکن
جن کے "لوگ" مارے گئے، جن کی عصمتیں تارتار ہوئیں ، جن کے پیارے بچھڑ گئے؟
ان سے رقبوں اور پلاٹوں والے "سیانوں " نے عقل بھی چھین لی ، علم کے نام پر ان کو مغالطے اور مبالغے پکڑا دئے ۔
ناں نظم ہے اور ناں نظام ناں ہی بجلی ہے اور ناں ہی صاف پانی بنیادی ضروریات زندگی  صرف ڈیفنس اور بحریہ ٹاؤنوں میں ملتی ہیں ۔
اور جشن مناتے ہیں وھ لوگ جن کے ہاتھوں میں محب وطنی کا " چھنکنا" پکڑا دیا گیا ہے ۔
محب وطنی کے دعوے دار ان لوگوں کے گھروں کی یہ حالت ہے کہ
ان کے گھروں میں  کھانا باہر کے ممالک کی کمائی کا بنتا ہے ، ان کے روٹی کپڑا اور مکان باہر کی کمائی سے ہیں ۔
ان کے جوان باہر کے ویزوں کے لئے ہلکان ہیں ۔
سرحدیں پار کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں ۔
عربوں کے ممالک میں اپنی انا کا اپنی خود داری کا خون کرکے ، خون کے انسو روتے ہیں
اور
دعوے کرتے ہیں محب وطنی کے۔
میرے اپنے لوگ ہیں یہ لوگ جو مغالطے میں مارے جارہے ہیں ۔
اور میں بھی ان میں سے ہوں
لیکن صرف مغالطے میں نہیں ہوں ۔
جاپان میں پناھ گزین "محب وطن پاکستانی "  میں سے کتنے ہیں جو وطن کی محبت میں جاپان کی بے وطنی چھوڑ کر "وطن" میں بسنے چلے جائیں ؟؟
امریکہ میں کتنےپناھ گزین "محب وطن پاکستانی "  میں سے کتنے ہیں جو وطن کی محبت میں امریکہ کی بے وطنی چھوڑ کر "وطن" میں بسنے چلے جائیں ؟؟

دعوے ہیں محب وطنی کے اور مزے کی بات ہے کہ ان کو وطن کی محبت کے معنی بھی نہیں معلوم ہوں گے۔
میرے لئے یہ دن ان شہیدوں کو یاد کرنے کا دن ہے جو ایک سراب کے پیچھے جان دے بیٹھے ،۔
آزادی کے سراب کے پیچھے!!۔
بقول شخصے
منزل ان کو ملی جو شریک سفر ناں تھے ۔
وہ جانیں جو ضائع ہوئیں
وہ قربانیان جو رائگاں گئیں
وہ عصمتیں جو تار ہوئیں ۔
وہ پیارے جو بچھڑ گئے
لاکھوں کے خون رائگاں گئے
وہ سب سراب نکلا ۔
آزادی ، آزادی نہیں غلامی ہی رہی
آقا بدل گئے ۔
امرتا پریتم نے نوحہ لکھا تھا
اج اکھاں وارث شاھ نوں
کتوں قبراں دے وچوں بول
تے اج کتاب عشق دا کوئی نواں ورقا کھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی
توں لخ لخ مارے ویں
اج لکھا دہیاں روندیاں
تینوں وارث شاھ نوں کہن ۔
میرے اندر بھی بھت بڑا دکھ کا ایک پہاڑ ہے
جو اس دن اکیلے میں پانی بن کر انکھون کے راستے
انسو بن کر بہ نکلتا ہے

پھر کہیں کوئی بستی اجڑی
لوگ کیوں جشن منانے آئے
دوست بھی دل ہی دکھانے آئے

ہفتہ، 10 اگست، 2013

پاک اسلام ، منافق اسلام

پاکستان میں اسلام کی یہ حالت ہو چکی ہے ہے کہ ، اسلام کے ٹھیکیدار "پاکی  عالم" اپنے اپنے ماننے والوں  کو سچ اور صداقت ، امن اور صلح کی تعلیم نہیں دے سکتے ۔
ان لوگوں نے مذہب کے نام پر اپنی اپنی دوکان داریاں بنا رکھی ہیں ۔
عالموں کے علم کے طوفان اتھائے جا رہے ہیں ، مذہبی جذبات پر طغیانیاں ہیں  ۔
لیکن اقوال بزرگاں میں لکھا ہے کہ نماز بے حیائی سے روکتی ہے
تو پاکستان کی نماز لوگوں کو بے حیائی سے نہیں روک سکی ۔
رمضان میں اسلام کی وہ رنگ بازیاں دیکھنے میں آئی ہیں کہ
گلی محلے کے رنگ باز  اسلامی رنگ بازوں سے نظر نہیں ملا سکتے ہیں ۔
گلوکاروں اور اداکاروں کے ٹی وی  پر "رنگ" دیکھنے والے تھے ۔
اسلامی دوکانداریوں میں بھی سب سے زیادہ مضبوط دوکان داری ہے
سید لوگوں کی !!۔ بھیک بھی لیتے ہیں اور احسان بھی کرتے ہیں ۔
اس لئے کاروباری مقابلہ بازی کے اس دور میں  "سید پذیر " لوگ بھی بہت ہیں  ۔
طریقہ کار یا دوکان کیسی بھی ہو  مال بنانا مقصود ہے جی ان  لوگوں کا بل واسطہ یا بلا واسطہ یہ لوگ معیشت کے مارے ہوئے ہیں  ۔
پاکستان بنا کر ہم نے ہندو کے منہ پر تھپڑ مارا
اور اب اس اسلام کے نام نہاد قلعے میں ، پاک اسلام  کی تعلیم کا اثر ہے کہ
عید کے روز بھی کوئٹہ اور کراچی میں یا دیگر ابادیوں میں لاشیوں پر لاشیں گر رہی ہیں  ۔
ہندو جو کہ  مسلمان کو کم عقل سمھتا تھا ، اج پاکستان کی حالت پر قہقہے لگا رہا ہے ۔
کیا پاک لوگ اور پاک فوج  ہندو کو شکست دینے کے لئے ، ہندو کو شرمندہ کرنے کے لئے ، ملک میں امن امان قائم کر کے ملک کی معشیت کو مضبوط کر کے دیکھا سکتے ہیں  ؟؟
انسانوں کی برابری  کے دعوی کرنے والے " منافق اسلام " میں ، سید اور سید پزیر   نسلی اور عظیم  لوگ !!!۔
ایک اللہ ہی کی عبادت کی تبلیغ اور مزاروں سے حاجت روائی ۔
پاکستان کا اسلام منافق ہے !!۔
میں بیزار ہوں ایسے مذہب  سے ۔

بدھ، 7 اگست، 2013

مسائل پاکستان ۔



لکھنے والوں کے لئے پاکستان کا ماحول جتنا زرخیز ہے اتنا ترق یافتہ ممالک کے لوگوں کا نہیں ہے ۔

مسائل  کا انبار ہے ،  کہ جس پر لکھنے والے اگر چاہیں تو لکھ لکھ کر کی بورڈ گھسا دیں 
لیکن 
بد نصیبی کی انتہا ہے کہ لکھنے والوں کو جس دانش کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ دانش عنقا ہے پاکستان میں ۔
فوجی آمریت کے خلاف لکھنا موضوع کے لحاظ سے آسان ہے  ،لیکن زمینی حقائق؟ بندہ غائب شائب ہو جاتا ہے۔ لاش بن کے نمودار ہوتا ہے ۔ میت کی ٹوٹی ہڈیوں کی تفصیل ،بوڑھا بات مرنے والے کے دوستوں کے بتاتا تو ہے، لیکن انسو باپ کی انکھوں میں بھی نہیں ہوتے کہ
زبردست مارے بھی اور رونے بھی ناں دے ۔
یہ غائب شائب ہو کر لاش کی صورت نمودار ہونے والے بڑے سازشی لوگ ہوتے ہیں ، دشمن کے ایجنٹ ہوتے ہیں ، فرشتوں کی بدنامی کی کامیاب سازش کر کے مر جاتے ہیں ۔
اور بد نام ہوتی ہیں سیکورٹی ایجینسیاں ۔
حالنکہ ایجیسیوں کا بھلا اس میں کیا قصور ، موت تو خدا کے ھاتھ ہے اور مرنے کا دن بھی مقرر ہے ۔
استعمار کے خلاف لکھنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے والی بات ہے ۔
بندے نے معاشرے میں رہنا بھی ہے۔
لیکن یارو پہلے تعلیم کی بات کریں کہ
یہ استعمار ہوتا کیا ہے؟؟
پاکستان میں استعمار اور کفر دو ایسی چیزیں ہیں جو مخالف پارٹی اور دوسرے مسلک کے لوگ کرتے ہیں ۔
آمریت ہوتی ہے فوج کی حکومت
اور 
استعمار ہوتا ہے ، جو عوام کے نام پر فرعون بن بیٹھے ۔
نام ہو جمہوریت کا 
لیکن پارٹی کے اندرونی الیکشن کا نام لینے والے کو شر پسند ، احمق ، غدار ، بکا ہوا یا بریف کیا ہوا کا لیبل لگا کر دیوار کے ساتھ لگا دیا جائے ، یا کہ کسی نامعلوم کی گولی سے مر جائے اور پارٹی لیڈر کو نئے نعرے دے کر جائے ۔
پاکستان میں تعلیم ہی اس طرح کی دی گئی ہے کہ
لوگ معجزوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں ۔
پنجابی فلموں کے ہیرو کی طرح کے کردار کا انتظار ہے جی سیاسی اور حقیقی دنیا میں ۔
برستی گولیوں میں ایک گنڈاسے کے ساتھ دشمنوں کی کشتیوں کے پشتے لگا دے۔
مظلوم کی آواز بغیر کسی لاؤڈ سپیکر کے میلوں دور تک سن  لے اور موٹی موٹی زنجیریں توڑ کر 
دنون کا فاصلہ سیکنڈوں میں طے کرتا ہوا آئے اور ظالموں کو سزا بھی دے اور مظلوم کی اشک شوئی بھی ۔
ڈورون حملوں کو روکنے کی بڑکیں ہیں 
لیکن پھر ان داتا امریکہ کی مار کون کھائے گا؟
بجلی کی کمی بس دور ہوئی ہی جاتی ہے
کیسے کہاں سے کون سی مشین سے ؟
بس جی بڑکاں ای بڑکاں تے 
چمچے ای چمچے ۔
کوئی کسی کس چمچہ اور کوئی کسی کا
اور ہیڈ چمچہ ہوگا فرشتوں کا چمچہ
اور فرشتے؟
نازک مقامات بھی آتے ہیں جی سوالوں میں ۔
ایک چمچہ در چمچہ کا کلچر ہے
کہ ہر چمچہ اندر سے خوف زدہ ہے ۔ 
اور اس خوف سے نجات کے لئے اپنے سے طاقت ور کی چمچہ گیری ہے۔

منگل، 6 اگست، 2013

عمومیت اور نرگسیت


پچھلے بدھ کے دن جناب اطہر صدیقی صاحب  ( نوائے ٹوکیو والے) کے اعزاز میں پریس کلب کی طرف سے افطاری کا اہتمام کیا گیا۔
میں بھی شامل تھا
یہان بڑے پیارے پیارے دوست ائے تھے ۔ الطاف غفار سیلانی ، انور میمن ، حسین خان۔
اب میرے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ جب میں باتیں شروع کرتا ہوں تو احمق لوگوں کو " واویلیاں" سی لگتی ہیں اور 
اہل علم دلچسپی سے سنتے بھی ہیں اور لقمہ بھی دیتے جاتے ہیں یا شگفتہ شگفتہ پھلجھڑیاں چھوڑتے ہیں ۔
سامنے کی کرسی پر حسین حان صاحب تھے اور ان کے ساتھ الطاف غفار سیلای صاحب ، میرے دائیں ہاتھ پر سید کمال حسین رضوی  صاحب بیٹھ گئے ۔
سید کمال صاحب کا حدود اربعہ بس اتنا ہی ہی میں جانتا ہون کہ اپنے چوہدری صاحب ان کی " گڈی" چڑھانے کی کوشش بہت کرتے ہیں ۔
یہاں موضوع بنا گیا قران میں ایٹمی ٹیکنالوجی کی بات۔
جب میں نے تفصیل سے سورة ھمزة کی روشنی میں تفصیل سے ایٹم اور اگ کی باتیں بتائیں تو
سید کمال حسین رضوی  صاحب بڑے متاثر ہوئے 
اور فرمانے لگے کہ جی کیا بات ہے کبھی کبھی ایک عام سا بندہ بھی کیا کیا  بات کر جاتا ہے۔
میں نے یہ بات سن کر نظر انداز کر دی کہ
چلو  جی سید صاحب ہیں جس سن میں بھی سید بنے کہلواتے تو سید ہی ہیں ناں جی 
لیکن سید کمال حسین رضوی  صاحب نے جب یہی بات تین چار دفعہ تکرار کی تو
میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ
مولانان رومی نے فرمایا تھا کہ
کبھی کبھی اہل علم کی صحبت میں گزارے ہوئے کچھ لمحے 
صدیون کی کتابیں پڑھنے پر بھاری پڑتے ہیں ۔
یہ سن کر سید کمال حسین رضوی  صاحب نے فورآ کها  ها ں هاں ایسا هی کها تھا مولانا رومی نے 
اور بات کرنے کا انداز ایسا تھا کہ مجھے بتا رہے ہوں کہ
ایسی علم کی بات تمہارے بھی علم میں ہے
تب میں نے ان کو بتایا کہ
سر جی
اپ 
اس وقت خاور کے ساتھ بیٹھے ہیں ،اور مولانا رومی نے یہ بات خاور جیسوں کے لئے کہی تھی ۔
میں ویسے ، اس لہجے میں بات کیا نہیں کرتا 
لیکن 
کیا کریں 
نرگیست کے ماروں کا کہ
ہر کسی کو نیچ ہی سمجھتے رہتے ہیں ۔
حالنکہ خاور کے تو بلاگ پر بھی لکھا ہے 
ایک عام سے بندے کی عام سی باتیں ۔

ہفتہ، 3 اگست، 2013

زندگی جو بھی ہے


کہیں کسی ویرانے سے ، ایک پنڈت ،ایک مولوی اور ایک پہلوان گزر رہے تھے۔
کہ 
انہوں نے کالے تیتر کے بولنے کی اواز سنی۔
تیتر کی اواز سن کر پنڈت نے کہا ، کالا تیتر رام نام جپ رہا ہے!۔
مولوی نے کہا: نئیں تم  غلط سمجھے ہو ،تیتر کے الفاظ واضع ہیں 
کہ
سبحان تیری قدرت!!!۔
پہلوان جی نے کہا
اچھا جی!!!۔
سانوں تے اس طرح سمجھ لگے ہے 
کہ کالا تیتر کہتا ہے
کھا گھی ، تے کر کسرت !!!۔
زندگی کو ہر  فلسفی نے تو علیحدہ علیحدہ نام دئے ہی ہیں ۔
عام لوگ بھی اس زندگی کو کئی مختلف رنگوں میں دیکھتے ہیں ۔
دیو جانس کلبی نے نے زندگی کو کتے کی ہڈی سے تشبیہ دی ۔
فرائڈ نے زندگی کو بھوک کہا۔
انبیاء نے معاملات کی درستگی کو اللہ کی خوشی کا نام دے کر اس کو زندگی  ہونے کا پرچار کیا۔
لیکن زندگی کیا ہے؟
ایک گورکھ دھندہ ؟
یا کہ کچھ اور۔
دنیا کے عظیم ترین ،درویش ، گوتم بدہ سے جس کسی نے روح کا پوچھا تو
عظیم بدہ بھی اس بات کا برا منا گیا تھا
کہ 
یہ سوال پوچھنے کا نہیں ۔
اور جب روح کا سوال سردار انبیاء سے کیا گیا تو
اس جواب تھا کہ
وح اللہ کا امر ہے اور اللہ اس کے متعلق بہتر جانتا ہے۔
لیکن زندگی کیا ہے اس پر سوچنے پر کسی نے نہ غصہ کیا ہے اور ناں ہی اس کو سیکریٹ ہونے کا کہا گیا ہے۔

اس لئے اگر اپ زندگی کو پانی کی چشمہ سمجھتے ہیں 
تو
اس میں روانی ہونی چاہئےشفافیت اور پاکیزگی ہونی چاہئے ۔
اگر اپ زندگی کوپھول سمجھتے ہیں 
تو 
اس میں تروتازگی ہونی چاہئے، رنگ ہونے چاہئے، خوشبو سب کا مقدر ناں بھی ہوتو خوش رنگ ہو تو ہو!!۔
اگر اپ زندگی کو ایک کہانی سمجھتے ہیں 
تو
اس میں دلچسپی ہونی چاہئے، سست رو اور ٹانگیں گھسیڑتی ہوئی زندگی کی بجائے تیز ٹیمپو کی دلچسپ اور رواں کہانی ۔
اگر اپ کے نزدیک زندگی پیسہ کمانے کا نام ہے 
تو
اس تکنیک میں کنجر سب سے اوپر ہوتے ہیں ، اب اس بات کا تعین اپ نے کرنا ہے کہ اس مقابلے میں جیتنا کیسے ہے۔
اگر اپ زندگی کو ایک مشقت سمجھتے ہیں 
تو
بس مشقت کئے چلے جاؤ ، تمہاری مشقت میں جفاکشی اور لگن ہونی چاہئے، صحت ، مشقت کی جڑوں بہن ہے اور کامیابی مشقت کی سویتلی بہن ، کبھی روٹھی ہوئی کبھی منی ہوئی !!۔

زندگی کو جو بھی سمجھو 
اس میں زنگی کا حق ادا کرو
بس 
ایسا ناں کرنا کہ 
زندگی کو گندا نالہ ناں سمجھنے لگنا
زندگی کو جھوٹ ناں سمجھنے لگنا
زندگی کو چالاکی نہیں سمجھنا
میرے نزدیک زندگی ایک مشن کا نام ہے
ایک مشن 
اور میں اپنے مشن پر ڈٹا ہوا ہوں ۔

Popular Posts