اتوار، 17 مارچ، 2013

دوست کی تحریر خاور کے بلاگ پر

بیس سال پہلے کی بات ہے کہ ایک جاپان میں مقیم کامیاب کاروباری صاحب نے پاکستان سے آئٹم امپورٹ کی
اور
پاک لوگاں کی غیرت کو للکارا تو نہیں لیکن ایکسٹرا غیرت مند قوم کی غیرت کو خود بخود ہی للکارا بج گیا۔!
بزنس میں نے تو ایک رنڈی کو جاپان میں بلایا اور کاروبار کووسعت دی۔
پاک لوگاں کی غیرت کو یہ کیسے گوارا ہوتا کہ چہاے جسم فروش ہی سہی
ہے تو پاک ناں جی
پاک چیز پر کافر جاپانی سواری کریں، ہیں جی؟!! 
بہت سے لوگ اس  پیشہ کرنی کو واپس پاک ملک کو بھجوانےکے لئے بے غیرتی کے خلاف کھڑے ہو گئے!
اس وقت زیادہ تر لوگ غیر قانونی مقیم ہوتے تھے۔ لیکن غیرت تھی کہ سونے نہیں دیتے تھی۔
اتوار والے دن دوستوں کے ڈیرے پر جمع ہوکر سب مل کر کھانا کھاتے تھے اور پر دیس کا غم ہلکا کرتے تھے۔
ایک عظیم مجاہد لیڈر سب کو کہتے تھے کہ چلو چلیں اور یہ بے غیرتی ختم کرنے کیلئے جان لگا دیں۔
ایک بارہم اتوار والے دن ڈیرے گیا تو ڈیرے کو تالہ لگا ہوا تھا۔اس وقت موبائل فون عام نہیں تھے اس لئے اگر کوئی غیر حاضری کی اطلاع نا دے تو ناراضگی نہیں ہوتی تھی۔
اس سے اگلے اتوار گیا تو سب موجود تھے ۔
پوچھنے پر بتایا کہ "ایکے بکرو" (شہر کا نام) گئے ہوئے تھے۔ رنڈی کو جاپان بدر کرنے !
ہم نے پوچھا تو پھر کیا ہوا رنڈی واپس چلی گئی ؟
سب صرف مسکرا کر رہ گئے!!
مجاہد اعظم سے پوچھا کہ کیوں جناب یہ نیک کام آپ بھی نہیں کر سکے؟
سب نے قہقہ لگایا۔
اور کہا یہ بھی لائن میں کھڑے تھے!!
ہم نے پوچھا مجاہد صاحب یہ کیا؟
کہنے لگے جانے والی تھی پچھلے جمعے کو تو سوچا ۔۔۔جانے  ای دو!!
چلا تو جانا ہی ہے جہاں جاپانیوں نے ہاتھ لگا وہاں ہم بھی سہی
!!

اسی طرح ایک بار اس زمانے کا ایک مشہور گلوکار "شو" کیلئے جاپان آیا تواس کے ساتھ دیگر آرٹسٹوں کے ساتھ ایک مشہور ٹی وی فنکارہ بھی آئی۔
اس فنکارہ کے فن سے اکیلے میں استفادہ کرنے کا ریٹ ہزار ڈالر لگا
اس زمانے کا ایک مشہور گلوکار! صاحب گانا گاتے ہیں اس لئے برف ڈلی وہسکی نہیں پیتے !!
 یعنی بغیر کسی ملاوٹ کے کھری وہسکی!!
 جسے ہمارے ہاں نیٹ دا پیگ کہتے ہیں ۔

رات ٹن ہوئے تو ہزار ڈالر ادا کئے بغیر فنکارہ کے کمرے میں پہونچ گئے
اکیلے میں کچھ فنون سیکھنے سکھلانے کے لئے
لیکن
۔فنکارہ نے شور مچایا تو
راجہ صاحب اور ان کے ساتھی جب مدد کو پہنچے تو علم ہوا کہ گھریلو مسئیلہ ہے
جب اس زمانے کا ایک مشہور گلوکار کی طرف سوالی نظروں سے دیکھا تو۔
اس زمانے کا ایک مشہور گلوکار صاحب مست ہو کر بولے۔
سب سے ہزار ڈالر لے رہی ہے۔
ساڈے تے نال آئی اے۔
ساڈا تے حق بن دا اے!
کامران حکومت کامیاب گئی تو
اب آئے گی نگران حکومت !
آثار یہی بتا رہے ہیں کہ یہ بھی جاتے جاتے کہے گی۔
جا ہی رہی ہے تو ۔۔۔۔جانے ای دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ساڈا وئی تے حق بن دا اے!!
عوام کا کیا یہ نہیں تو وہ سہی !!
عوام تو فنکارہ اور رنڈی کیطرح ہے جو دےاور جو نا دےہر ایک کو بھی حق دے ہی دیتی ہے ۔۔جانے ای دو
پاکستانی سیاست کہ
گاؤں کی ایک معصوم سی لڑکی
جو پھس گئی ہے تماش بینوں میں


یہ خاور کے بلاگ پر تو لگی ہے لیکن خاور کی تحریر نہیں ہے

جمعہ، 15 مارچ، 2013

سوشی اور ساشمی ، جاپانی پکوان

بہت ہی بچپن میں غٖالبا چوتھی جماعت کی عمرکی بات ہے کہ میں کہیں سے سنا کہ پڑھا
جاپانی لوگ کچی مچھلی کھا جاتے ہیں۔
پنجاب میں جہان سمندر کی مچھلی کا تو تصور بھی محال تھا
بلکہ گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کی سرحدیں ملتی دھرتی کے علاقے میں تو دریا بھی بہت دور ہیں کہ
بس سنا کرتے تھے دریا کی مچھلی میں صرف ایک دو ہی کانٹے ہوتے ہیں
ہمارے نزدیک مجھلی کا تصور تھا جوہڑوں میں پلنے والی مچھلی ،ڈاؤلا، ٹچر۔ کینگڑ، للاکھی،اور کبھی کبھی ‘‘ملی‘‘ نامی مچھلی۔
ان مچھلیوں میں کینگڑ اور للاکھی تو ایسی مچھلیاں تھیں کہ ان کو پکڑنا خود کو زخمی کرنے والی بات ہوتی تھی۔
اس مچلیوں میں اتنے کانٹے ہوتے تھے کہ خدا کی پناھ۔
ایک دفعہ جب سنا کہ گدو بیراج کی پلا مچھلی دنیاکی لذیذ ترین مچھلی ہوتی ہے تو
میرا تصور مجھے یہی دیکھا سکا کہ
ڈولے کا پونگ یعنی بچہ ڈولا کے جیسی لذت ہو گی
اس لئے کہ دولے کے پونگ کے کانٹے نرم ہونے کی وجہ سے میں اس مچھلی کو کانٹوں سمیت چبا جاتا تھا۔
اس لئے جب یہ سنا کہ جاپانی لوگ کچی مچھلی کھا جاتے ہیں تو تصور یہ تھا کہ چھپڑ سے نکالی مچھلی کو ایسے ہی کھا جاتے ہوں گے جیسے ہم کسی کھیت سے گاجر یا مولی اکھاڑ کر کچر کچر کھا جاتے ہیں ۔
مدتوں بعد جب جاپان میں کچی مچھلی کھانے کا اتفاق ہوا تو احساس ہوا کہ میرا تصور کتنا غلط تھا۔
سوشی کا نام بہت سے لوگون سے سنا ہے اور پڑھا
اج ہم بات کرتے ہیں سوشی اور ساشمی کی۔
کھانے صرف پکوان ہی نہیں ہوا کرتے ۔
سوشی کا حدوداربعہ ساشمی کے بغیر کہنا مشکل ہے
ساشمی کہتے ہیں مچھلی کے گوشت کے قتلوں کو ، جن میں سے کانٹوں کو نکال باہر کیا گیا ہو۔
کم بیش ایک سنٹی میٹر چوڑے اور چار سے چھ سنٹی میٹر لمبے یہ قتلے انتہائی نفاست سے کاٹے گئے ہوتے ہیں ۔
لیکن یاد رہے کہ ساشمی اورسوشی میں استعمال ہیونے والی مچھلیاں جہان تک میں نے دیکھا سنا ہے ، صرف سمندر کی مچھلیاں ہی ہوتی ہیں ، میٹھے پانی(دریا) کی مچھلی کو کچا کھانے کاجاپان میں بھی ماحول نہیں ہے ۔
ساشمی میں کٹی ہوئی مچھلیوں کے قتلوں کو انتہائی نفاست سے پلیٹ میں یا لکڑی کی جھوٹی سی چوکی پر رکھ کر پیش کیا جاتا ہے ۔
ساشمی کو رکھنے کے لئے اس کے نیچے باریک اور لمبی کٹی ہوئی مولی کا کشن بنا کر رکھا جاتا ہے ۔
پتلی اور لمبی کٹی ہوئی مولی ؟ اپ اس طرح سمجھ لیں کہ مولی کی سیویاں سی بن گئیں ہوتی ہیں ۔
ایک چھوٹی سی پلیٹ میں واسابی اور سوے ساس رکھ لیا جاتا ہے۔
واسابی؟ واسابی مولی کی ایک انتہائی کڑوی قسم ہے
یہ مولی بہت چھوٹی سی ہوتی ہے۔
اس مولی کا پیسٹ سا بنا لیا جاتا ہے جو کہ سبز رنگ کا ہوتا ہے ۔
اس کا ذائقہ ؟ بس جی واسابی کا ذائقہ واسابی جیسا ہی ہوتا ہے ۔
ماچس کے سرے پر لگے مسالے جتنی واسابی اپ منہ میں ڈال کر دیکھیں
اپ کے ناک میں سے ایسے لگے گا کہ اگ نکل رہی ہے۔
اس واسابی ملے سوے سوس میں لگا لگا کر ساشمی ،چاولوں کے ساتھ کھائی جاتی ہے ۔
دو سال پہلے تک جاپان میں کلیجی کو بھی ساشمی کے طور پر کھایا جاتا تھا ۔
لیکن اب اس پر پابندی لگا دی گئی ہے ۔
سوشی
چاول کی ایک لقمے کے برابر کی مستطیل نما ڈلی سی بنا لی جاتی ہے، اس پر تھوڑی سی واسابی لگا کر
اس کے اوپر ساشمی والا ایک قتلہ رکھ کر پیش کیا جاتا ہے ۔
کھانے والا اس کو
سوے سوس میں ہلکا سا لگا کر کھاتا ہے ۔
سوسی کی ایک قسم نوری ماکھی بھی ہوتی ہے۔
نوری ایک قسم کی سمندری گھاس ہوتی ہے
جس کو پیسٹ بنا کر اس کو کاغذ نما پتلا کر کے سوکھا لیا جاتا ہے۔
عام نظرمیں یہ ایک گہرا سبزرنگ کا سیاہی مائل کاغز ہی لگتا ہے
اس کاغذ میں چاولوں کو لپیٹ کر چاولوں کے اندر مچھلی یا مچھلی کے ساتھ سبزیاں ڈال کر گول ڈنڈا نما لپیٹ لیا جاتا ہے ۔
اس ڈنڈے کو لقمے کے سائیز کا کاٹ لیا جاتا ہے تاکہ کھانے میں اسانی ہو ۔
اسی نوری نامی کاغذ میں چاول کو لپیٹ کر مٹھی بھر چاول کو اونی گیری کہتے ہیں ۔
محنت کش جاپانی معاشرے میں محنت کش لوگ کام پر جاتے ہوئے کچھ اونی گیریبان بنا کر ساتھ رکھ لیتے ہیں ۔ جو کہ ان کے کھانے کے کام اتی ہے۔
پچھلے دنوں جاپان میں بین القوامی سوشی کا مقابلہ ہوا تھا
اس میں یورپی اقوام نے بھی حصہ لیا تھا ۔
یورپی اقوام میں سے رومانیہ کے سٹال نے لوگوں کی توجہ کھینچے رکھی تھی ۔
رومانیہ والوں نے مچھلی کے قتلوں پر کئی قسم کی خوشبودار پتیوں کا ذائقہ دیا ہوا تھا
جیسا کہ ہم اپنے ہاں ، دہنیا یا میتھی کا خوشبو دار ذائقہ دیتے ہیں
لیکن اس مقابلے میں پہلے نمبر پر انے والا ملک تھا
ناروے!!۔



جمعرات، 7 مارچ، 2013

اپ کو کیا نظر آ رہا ہے

سپہ سالار کے " ٹیک اور" کی مخالفت لشکر کے اندر سے بھی کی جارہی ہے
اور یہ مخالفت عنان سپہ سالاری سنبھالتے ہی شروع ہو گئی تھی
لیکن
ملکی حالات کی انارکی، ہنگامے ، قتل خون اور دیگر معاملات سپہ سلار کی ٹیک اور کی خواہش کے صحیع ہونے کی نشاندہی کر رہے ہیں
سیاستدان ! ملک کو بجانے کی بات کر رہے ہیں
ہر سیاستدان کا دعوہ ہے کہ صرف وہی ملک کو بچا سکتا ہے
ناں ترقی کی بات
ناں
تعمیر کی بات
یعنی کہ مریض کے زخموں کا اندازہ مرہم پٹی نہیں
بلکہ
جان پر بنی ہوئی ہے
سیاستدان، جن کو کچھ اور نعرے لگانے چاہئے
تعمیر کے ، ترقی کے، ملک دشمن عناصر کی مخالفت ہے
لیکن
نعرے لگا رہے ہیں ملک بچاؤ کے
ان کو کیا نظر آ رہا ہے جو کہ عام لوگوں کو نظر نہیں آ رہا ؟؟؟

منگل، 5 مارچ، 2013

تہانوں کی ۔

بہت ہی افسوس ہوا یہ کارٹون دیکھ کر
وڈی سرکار کا میڈیا ونگ کیسے لوگوں کو احمق سمجھ کر ٹریٹ کرتا ہے
اور اس سے زیادہ افسوس ہو ان لوگوں کی عقل پر جو اس کو "بہت خوب " کے ٹائیٹل اور کومنٹس کے ساتھ شئیر کر رہے ہیں

لمحہ فکریہ کہ
اگر اپ کو یا اپ کے کسی عزیز کو پولیس یا کوئی ریاستی ادارہ اٹھا کر لے جاتا ہے
اپ کہاں فریاد کریں گے؟؟؟
اور اس بات کا فیصلہ کون کرئے گا کہ اپ کا عزیز  مجرم ہے بھی کہ نہیں ؟
یا کہ اپ کے کسی فعل کی کیا  وجوہات تھیں  کہ اپنی دانست میں ملک کی بہتری کے لئے کام کر رہے تھے
لیکن
اپ کو مجرم سمجھ کر پکڑ لیا گیا ہے
اس بات کی وکالت کون کرے گا؟
یا کہ جس جس کو حساس اداروں نے مار دیا  وہ سب مجرم تھے؟
تو اتنے سارے مجرموں کی موت کے باوجود ملک میں انارکی بڑہتی ہی کیوں جا رہی ہے؟
کہیں اصل مجرم " وہ " تو نہیں ہیں ، جن کو تم معصوم سمجھ رہے ہو؟؟
مثال دے کر واضع کرتے ہیں
افضل تیلی  کا ابا بیمار ہے
جس کی تیماردری کے لئے وہ  مردان کے ہسپتال میں ہے
شام کو اس کا بھائی آ جاتا ہے کہ
بھائی تم گاؤں جا کر ارام کر لو ، اج رات میں ابے کے ساتھ  ٹہر جاتا ہوں
افضل تیلی جو کہ  سائیکلوں کی مرمت کا کام کرتا ہے
نسوار اور چرس  کا بھی شوق رکھتا ہے
واپس گاؤں جاتے ہوئے  ایک ناکے پر ملیشا والے کھڑا کر لیتے ہیں
اس کے پاس سے تلاشی کے باوجود کچھ نہیں نکلتا
لیکن
خفیہ والے اس کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں ۔
چند دن بعد اس کی لاش ملتی ہے
سارا ملک اس افضل تیلی کی  دہشت پسندانہ سرگرمیوں سے واقف ہو جاتا ہے ۔

میر خان  کا چھوٹا بھائی ایک  غیر ملکی فوج کے ڈرون حملے میں مارا جاتا ہے
میر خان غم سے نڈھال ہو جاتا ہے
اپنی قبائیلی جبلت اور رواج کے مطابق اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لینا چاہتا ہے
لیکن دشمن نظر نہیں اتا
میر خان ایک راکٹ لانچر کا انتظام کر کے دن رات اپنی چھت پر بیٹھا رہتا ہے
کہ
جب بھی ڈرون نظر ائے گا اس جہاز کو مار گرائے گا۔
میر خان کے ملک کی فوج جو کہ اس کے بھائی کی زندگی کو تحفظ بھی ناں دے سکی اور ناں ہی میر خان کے بھائی کے قتل کا بدلہ ہی لے سکی
اس فوج کے بندے آ کر میر خان کو راکٹ لانچر کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ لیتے ہیں ،
چند دن بعد  میر خان کی لاش بھی مل جاتی ہے ایک جگہ جھاڑیوں کے پاس ۔
میر خان کا ابا جس کے دو ہی بیٹے تھے
اس کے دل پر گزرنے والی واردات کا احساس کرنے کی ضرورت نہیں ہے
بس یہ دیکھیں کہ بدلے کی اگ میں جھلستے ہوئے اس " ابے " نے بارودی جیکٹ  پہنی
اور
ملکی فوج کے ایک قافلے کے اندر جا کر پھٹ گیا
اگلے دن کے اخباروں میں مذہبی لوگوں کا  خود کشی کی حرمت کا مناظرہ ہوا
فوج کی طرف سے اس کے دہشت گرد اور ملک دشمن  ہونے کا بتایا گیا
 ملک  کی سب سے بڑی عدالت نے
ملکی فوج سے پوچھ لیا کہ
میر خان کا بھائی ڈرون حملے میں کیوں مارا گیا؟؟
اور احمق لوگوں نے
عدالت کی حثیت پر جگتیں لگانے والے کارٹون بنا کر فیس بک پر لگانے شروع کردئے

پر  جی
تہانوں کی!!!۔

Popular Posts