جمعہ، 24 فروری، 2012

جواری کا مشوره

سیول اسٹیشن کے سامنے کی سڑک پار کریں تو پولیس اسٹیشن کے پچھواڑے میں واقع هے
هلٹن هوٹل!!ـ
اس هوٹل ميں تین رات کا قیام تھا ، دبئی سے جاپان واپسی پر
اس هوٹل کے گراؤنڈ فلور ( یعنی تھلے) اک جوا خانه هے جس کو کسینو کهتے هیں ـ
کورین لوگوں کا دخله یهان ممنوع هے
اور داخل هونے کے لیے ایک پاس کی ضرورت هوتی هے یا پھر اس هوٹل ميں قیام ،
اور جی هوٹل مہنگا هے
کوئی بتیس هزار روپے پاکستان شب بسری کے ،
جن میں ناشتے وغیره کا ذکر نهیں ملتا ،
کسینو میں البته مالٹے کا رس بڑا مزے دار تھا
اور مفت بھی
اس لیے صبح سویرے ایک پھیرا کسینو کا لگا کر چار گلاس مالٹے کے پیتا تھا اور پھر چل سو چل ، که زندگی چلنے کا نام هے
میرے ساتھ جاپانی دوست تھا جس کو جوئے کا شوق ہے
یه دوست دبئی کے سفر میں بھی هم سفر تھا
همارے کوریا پہنچنے سے پہلے ایک اور دوست جاپان سے کوریا پہنچ چکا تھا اور جب هم یهاں پہنچے تو
وه کسینو ميں بیٹھا کھیل رها تھا
وه والی تاش کی گيم جس ميں کہتے هیں که اکر چار یکے آ جائیں تو بنک بھی قرضه دے دیتا هے
جوئے خانے میں کچھ پاک چہرے بھی نظر ائے
جی هاں پاکستانی لوگ
ایک بندے نے مجھے پوچھا
اور لہجه تھا خاصا ڈنگر ٹائیپ
پہلی واری نظر آیا ایں ؟؟
میں نے بھی جواب دیا
آہو!!!ـ
تو جی اس کا مشوره تھا بھاگ جا یهاں سے لٹیا جائیں گا
میں نے اس کو تو کچھ نهیں کها که
مجھے بدتمیز نامی ایک اردو کے بلاکر کی بات یاد آ گئی که
جاهل کی سب سے بڑی سزا یه ہے که اس کو علم کی بات بتائی هی ناں جائے
لیکن دل ميں سوچا که
اگر یه مشوره تم خود کو دے لیتے جب پہلی بار جوئے خانے میں آئے تھے تو کیا هی بہتر هوتا
تمهارے لیے
یه جواری لاهور کا تھا
اور دو جواری میں جو که فیصل اباد کے تھے
انہوں نے بھی الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ یهی مشوره دیا که جی
یه جگه لٹ جانے والی جگه ہے
تومیں نے ان کو بتایا که میں اپ لوگوں کی طرح بہادر بنده نهیں هوں
بلکه بہت هی بزدل هوں اس معاملے ميں
که داؤ لگانے کی جرات هی نهیں هے مجھ میں ـ
ان کا بھی دل خوش هو گیا که کسی نے انکو بهادر کها هے
اور میں بھی خوش کے
که جوئے کے عذاب ميں مبتلا نهیں هوں

اتوار، 19 فروری، 2012

افلاطون مسائل اور حل

تیری بربادیوں کے منصوبے هیں آسانوں میں !!ـ
ڈاکٹر میڈ (عرفیت) جو که اصلی ڈاکٹر بھی نهیں تھے بس کہیں سے ڈاکٹری سیکھ آئے تھے
ان کے نام کے ساتھ شاه بھی لگتا تھا
اس لیے ایک دن باورے گاؤں کی ایک عورت ان کے پاس کچھ مسائل لے کر آئی تھی
جن کی بنیاد تھی جادو ٹونه
اور بی بی چاهتی تھی شاه جی سے روحانی حل !!ـ
مسائل تھے که کچے کوٹھے کی کچی سیڑهیں پر پاؤں پھسل پھسل جاتا هے
حالانکه بارش بھی نهیں هوتی
دروازے آواز کرتے هیں ، کتنی بھی آهسته سے بند کریں
سلائی مشین ، سوئیاں بڑی توڑتی هے
اور سوئیاں هیں بھی بڑی مہنگی که اس ٹونے میں مجھے اقتصادتی طور پر تباه کرنے کی سازش هے
بجلی پر بھی ٹونه کردیا کيا هےکه
میں بٹن باهر کے بلب کا دباتی هوں
لیکن بتی اندر کی جل جاتی هے
اور اندر کے بٹن سے باهر کی
اور کبی کبھی ایک بٹن سے دونوں هی جل جاتی هیں
ان سب مسائل کا بی بی جی روحانی حل چاهتی تھی
نان که تکنیکی
کچھ شاه جی بھی ان کی باتیں اس سنجیدگی سے سن رهے تھے که کوئی اور بنده اگر بات کرتا تو بی بی جی نے اس پر ملک دشمنی یا غداری کا الزام لگا دینا تھا
بلوچستان جل رها هے
بلوچی مر رهے هیں ، غائب هو رهے هیں
اور پھر مسخ شده لاشوں کی شکل میں مل رهے هیں
اور
یه غیر ملکی سازش ہے ، میڈیا کی غیر ذمه داری هے
بلکه کبھی کبھی تو بلوچ فوج کو بدنام کرنے کے لیے خود هی مر کر مسخ شده لاش بن جاتے هیں
میں ه بات لکھ رها هوں
تاکه سند رهے که
بکٹی کو مار کر فوج نے اپنے کیپٹن حمید کو بچا لیا
جس نے ایک لیڈی ڈاکٹر پر اپنی مردانگی کا مظاہره کیا تھا
اور پھر
چل سو چل
بلوچ اپنے حقوق کا مطالبه کر رهے هیں
اور حکومتی ادارے ان کو کچل رهے هیں
کسی بھی ملک نے پاکستان پر حمله نهیں کیا هوا هے
فوج کسی بھی غیر ملکی فوج سے نهیں لڑ رهی ہے
یه میں اس لیے لکھ رها هوں که اکهتر کی کاراوائی کو پاکستان ميں کچھ اس طرح سے پڑھایا گیا هے
که
پاک فوج اور هندو کی لڑائی میں
بنگالیوں نے غداری کی جس کی وجه سے شکست بلکه شکست فاش هوئی
لیکن
حقیقت یه تھی که
بنگالیوں نے اج کے بلوچیوں کی طرح اپنے حقوق مانگے تھے
جب ناں ملے
اور فوج نے ان کو کچلنے کی کوشش کی تو
بنگالیوں نے مزاحمت شروع کر دی
جس میں انڈیا نے ان کو تربیت دے کر مضبوط کر دیا
اور پھر
ملک ٹوٹ گیا
نوے هزار غازی بندے قیدی هوئے
اور قوم کو جھوٹ پڑھایا گیا که
هم بڑے بہادر
سیاستدان برے ، بنگالی غدار
اگر یه غیر ملکی سازش ہے تو دفاع کی ذمه دار فوج اب تک اس سازش کو بے نقاب کیوں نهیں کر سکی؟؟
قوم کو اعتماد میں کیوں نهیں لیا گیا
غر ملکیوں کے ایجنٹ کو ٹی وی پر دیکھا کر تو دیکھیں
عوام ان لوگوں کو ملک میں رهنے ناں دیں گے
لیکن اگر اپ خود هی غیر ملکیوں کی فوج هوں تو؟؟
بلوچستان صرف پاکستان میں هی نهیں هے اس کا جغرافیه ایران اور افغانستان تک پھیلا هوا هے
اور اس کی آزادی کی امریکی قرار داد !!!ـ
ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنے والی بات بھی هو سکتی هے
لیکن اس وقت تک
ملک ٹوٹ چکا هو گا
مں نے پہلے بھی ایک پوسٹ میں خدشے کا اظہار کیا تھا که
یه ناں هو که
اگلا پاسپورٹ نیو کراوانے کے لیے
پنجاب کی ایمبیسی جانا پڑے
اس مسئلے کا حل کوئی تعویذ یا روحانی بابے نهیں هیں
اور ناں هی فج کی شان بڑھانے میں هیں
اس کا حل یه هے که
فوج بکٹی کے قتل کی معافی مانگے
ڈاکٹر شازیه کے مجرم کیپٹن حمید کو سر عام سزا دے
اور بکٹی کے قتل کے ذمه دار جرنیلوں کو تعزیرات پاکستان کے مطابق سزا دے کر بلوچوں کو راضی کیا جائے
ورنه
پھر
تیار هو جائیں که
اپ کا ملک هو گا اسلام اباد
اور چھاؤنی ره جائے
جهلم اور گوجرانواله والی
باقی جهان تک بات هم
تارکین وطن کی
تو جناب کی کے بڑوں بشمول جرنل عیوب ، سرمے والی سرکار جرنل ضیاع وغیره کی کوششوں سے پاکستان میں رهنے کے هی قابل نهیں رهے هیں
هم نے تو جی پاسپورٹ هی نیو کروانا ہے
پاکستان کا ناں هوا
امریکه برطانیه ، فرانس کا ناں هوا تو جاپان
یا پنجاب کا هو گا
اگوں تیرے بھاگ لچھیے

بدھ، 15 فروری، 2012

ڈاکٹر لبنی مرزا کی کتاب اور بلاگ

http://diabetesinurdu.com/سوئیے-اور-پائیے/
ڈاکٹر لبنی مرزا کی کتاب اور بلاگ
میں ان کی تحاریر پڑھ رها هوں 
اڈاکٹر صاحبہ جو کام کررهی هیں یه کام پاکستان میں عام لوگوں کے سر سے گزرجانے والا هے 
للیکن اگر معاشرے مین یه علم عام هو جائے تو 
بہت سی بیماریوں سے نجات مل جائے 
مثلاً انہوں نے جو سونے کے دوران آکسین کی کمی کا لکھا هے تو 
میں ستمبر 2011کی پہلی تاریخوں سے رات کو سوتے هوئے ناک پر ایک مشین لگا کرسوتا هوں 
کیونکه مجھے خراٹے اتے تھے جس کے دوران کبھی کبھی سانس رک جاتی تھی 
تو میوکی نے کها که ایسے لگتا هے که تم مر هی ناں جاؤ که کبھی کبھی تو ایک منٹ تک تمهاری اواز نهیں اتی 
اس لیے میں جب ڈاکٹر کے پاس گیا تو اس نے ٹیسٹ کرنے کے لیے مجھے ایک رات کے لیے مشین لگا کر سونے کا کها
جس سے جو ڈیٹا ملا 
وه بتاتا تھا که میری سانس رکتی هے 
تو ڈاکٹر نے بتایا که اتنی سانس رکنے سے چند دنوں یا مهینوں میں تو کچھ نهیں هوتا لیکن 
سال هاسال گزرنے پر دماغ کو آکسیجن کی کمی شوکر اور کئی دوسری بیماریوں کا باعث بنی هے 
اور خراٹوں کی علاج کے لیے بیماری کو سمجھنے کے لیے جو سوالات یهاں جاپان مين کرتے هیں وه 
بھی دن کو نیند انے 
اور سر کی درد کے هونے یا ناں هونے کے متعلق هوتے هیں 
اور بلکل وهی باتیں ڈاکٹر صاحبہ بھی لکھ رهی هیں
اس لئے میرے خیال میں اگر یہ کتاب عام لوگوں تک ناں بھی پہنچ سکے تب بھی جو لوگ یہ بلاگ پڑہ رہے ہیں
یا بلاگ لکھنے والوں کو ضرور یہ کتاب پڑہنی چاہیے

پیر، 13 فروری، 2012

دبئی ۳

دبئی کے لوگ اس کو برج خلیفہ کہتے ہیں
ایک اونچی سی عمارت ہے جس پر چڑہنے کے پیسے لگتے ہیں
چار سو پچیس درہم
جو کہ دبئی میں ایک مزدور کی ادہ مہنے کی تنخواہ ہوتی ہے
اور ڈرامہ یہ ہے کہ عمارت کی ادہ سے کچھ اوپر کی ایک جگہ پر چڑہا کر ٹرخا دیا جاتا ہے
عملے میں اتنی زیادہ فلپینی تھیں کہ مجھے لگ رہا تھا
فلپین آگیا ہوں
اس عمارت سے لی گئی تصاویر اپ بھی دیکھیں















ہفتہ، 11 فروری، 2012

دبئی ٢

میرا قیام تو دبئی کے هوٹل میں تھا لیکن اعجاز بھٹی کا یارڈ شارجه میں
هے
جو که همارے هوٹل سے صرف بیس منٹ کا سفر تھا
اور حاجی صاحب سڑکوں کے بھی بھیدی تھے

لیکن یارو  جس طرح دبئی فلپنیوں کا هے
اسی طرح شارجه پٹھانوں کا هے
ایک جگه میرے جاپانی دوست نے مینگنیاں سی دیکھ کر
مجھے پوچھا که کیا اس یارڈ والوں نے خرگوش پالے هیں؟؟

میں نے پوچھا که کیوں تو اس نے اشاره کیا که یه کس چیز کی مینگنیاں هیں

اب مجھے بھی سمجھ نهیں لگی که یه کس چیز کی مینگنیان هیں

حالانکه میں پینڈو هوں اور خاصا زیاده پینڈو هونےکی وجه سے جانوروں سے واقف هوں

جن میں دو ٹانگوں والے بھی شامل هیں

سمجھ ناں لگنے کی وجه سے میں نے پٹھان ساتھی سے پوچھا که یه کیا چیز هے ؟

تو اس کے جواب نے حیران کر دیا که

یه نسوار هے
منه سے نکال نکال کر پھینکی هے
اور یهان سارے هیں بھی پٹھان

اس لیے کثرت سے هیں
تو جی شارجه میں پٹھان هی پٹھان نهیں تھے

یهان هزاره لوگ بھی هیں
سائیکلوں پر سامان خریدنے نکلے هیں ـ

ایک هزاره کو سائیکل کے هینڈل پر کار کے سٹیرنگ لادھے دیکھ کر جاپانی دوست ابھی تک حیران هے که ان کا یه کیا کرے گا
که ایک گاڑی ميں ایک هی سٹیرنگ هوتا هے
دو کی ضرورت نهیں هوتی اور سٹیرنگ کے خراب هونے کے چانسز بھی ناں هونے کے برابر هیں

تو سٹیرنگ کیا کیا کیا جاتا هے؟

اس کا سوال اپنی جگه لیکن میں دبئی کے کنٹینر  میں سٹیرنگ بھی ڈالتا هوں

جن کو فروفت کرنا اعجاز کی ذمه داری ہے
اب یه بات اعجاز یا نومی یا پھر ملک شهباز صاحب هی بهتر جاتے هیں که

اس سٹیرنگ کے ساتھ کیا واردات کرتے هیں که

بک جاتا هے !!ـ

جمعرات، 9 فروری، 2012

دبئی ١

دبئی پہنچنے سے پہلے هی جاپان ميں همارے دوست هیں احمد خان صاحب ، ان کے تعارف سے جمال شاه صاحب میرے هوٹل پہنچتے هی ملنے کے لیے آ گئے تھے
اور اس کے بعد هر روز جمال شاه صاحب اور حاجی صاحب مجھے اور میرے باس کو ساتھ لے گر گھوم رهے هیں
اجنبی جگه پر یه ایک بہت بڑی سهولت هے جو جمال شاه صاحب نے مجھے دی هے
کل هم هوٹل کی چھت پر بیٹے تھے اور میں نے ان کی تصویر بنائی هے
اور تصویر بناتے هوئے میں بھی اس تصویر میں شامل هوں


ہفتہ، 4 فروری، 2012

مستقبل

ایک وقت تھا کہ میں یہ سوچا کرتا تھا کہ
اس دنیا کو بناے والا کوئی ہے ضرور
لیکن اس کے بعد اس بنانے والے نے دنیا کو بڑے ہی باریک ضابطوں میں باندھ کر اس دنیا کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہو ا ہے
میرے خیال میں وہ خود جہاں ہے اس کو لامکاں کا نام دیں تو
وہاں وقت نامی چیز نہیں ہے
لیکن ہم ہیں کہ وقت نامی چیز میں ہیں
جہاں سے ہمیں گزارے جانے یا گزرنے کا احساس ہے
ہم ہیں کہ صدیوں کا سفر کر رہے ہں کہ زمانوں کی بات کر رہپے ہیں
لیکن
اس کے لیے یہ لمحوں کا بھی معاملہ نہیں ہے کہ اس کے لیے وقت ہے ہی نہیں
کائینات
جو که ایک بہت هی بڑی چیز هے همارے لیے،
وقت سے وراء هستی کے لیے کیا حثیت رکھتی هے ؟ کیا اس کا تصور کر سکتے هیں هیں آپ؟؟
میرا تصور هے که ایک لاٹو
صرف ایک لاٹو جتنی چیز
جو که وقت سے وراء والی هستی کے سامنے چل رها هے یا اسے چلنے کا حکم هے
کن فیکون
میں تو وهاں تھا نهیں که کب کی بات ہے
یه کب کبھی کیا هے ؟
یه کب بھی تب هے جب وقت هے
لیکن اُس کے لیے ناں کب هے ناں تب هے
ناں جب هے، ناں یهاں وهاں
چیزیں اور ان کی وجوه
کی بحث جو که میرے اندر چھڑی تو
میں اس نتیجے پر پہنچا که
ایک دن اُس کو خیال ایا هو گا
لیکن یه ایک دن کی اصطلاح بھی میری هے که میں ایک مجبور محض وقت میں پیدا وقت سے وراء سوچ سوچ هی نهیں سکتا
تو جی ایک دن اس نے
کها
کن فیکون
ایک چھناکا(بگ بین) هوا یا پھر نهیں پھر هوا هو گا
چلو جی روشنی کا جھماکا هوا هو گا یا پھر نهیں هوا هو گا
ایک خاموشی چھا گئی هو گی
هو سکتا ہو که نان هی چھائی هو
کچھ هوا ضرور تھا
که میں وهاں تھا هی نهیں
چیزوں کے هونے اور ان کی وجوه کے هونے اور ناں هونے کی بات تو انسانی علم بس اتنا هی هے نان جی که پنجاب کے لوگ سمجھتے تھے که زمین ایک بیل کے سینگوں پر ٹکی هے
تو کسی نے بابے نانک سے پوچھا که وھ ٹگا (بیل) کهاں کھڑا ہے تو انہوں نے کها که
ٹگے تے ٹگا تے فیر ٹگا
تو جی هو سکتا ہے که میرا یه خیال بھی ٹگے پر ٹگے کے خیال جیسا هو اور انے والے زمانوں کے لوگ کهیں که یه خاور بھی کیا معصوم خیالات کا مالک تھا
تو جی ایک پہیه ، ایک لاٹو یا کسی اور شکل میں کہـ لیں چالو هو گیا
اب جی بنانے والے نے اس میں جو کوڈ ڈالے هیں
کوئی بھی نفس اس کوڈ سے زیادھ کا کام تو نهیں کرسکتا ناں جی

تو
کیا کریں جی
لیکن جی بعد میں احساس ہوا کہ
اس رب کا جو بھی نام ہو
لیکن میں اس کو اللہ کے نام سے پکارتا ہوں
وہ سدا اس کائینات کو سنبھالتا ہے

باریک ضابطوں میں سے کچھ بڑے بڑے ضابطے هیں
وزن ، وقت میں قید چیزیں وزن رکھتی هیں
اور اس وزن ، وقت اور دیگر کے اصول ساری کائینات میں مقرر هیں

Popular Posts