جمعہ، 27 جنوری، 2012

لوک کہانی اور میڈیا

جاپانی زبان کی ایک لوک کہانی کے
جس ميں ایک بچه جس کا نام هوتا هے
اورا شیما تارو
ایک دن سمندر کے کنارے شرارتی بچوں کی زد میں آئے ایک کچھوے کو بچاتا هے
جس پر کچھوا اوراشیما تارو کو اپنے دیس کی سیر کی دعوت دیتا هے
کچھوا تارو کو لے کر زیر آب اپنے دیس لے جاتا جهاں تارو کجھ دن گزارتا هے
واپسی پر کچھوے اس کو ایک بکس دیتے هیں که اسے ناں هی کھولنا که تمهارے لیے یه هی بہتر هے
جب اوراشما تارو سمندر سے باهر اتا هے تو زمین پر زمانے بدل چکے هوتے هیں صدیوں کا فرق پڑ چکا هوتا هے
لوگوں سے اپنے متعلق پوچھتا ہے تو بڑے بوڑھے اس کو بتاتے هیں که
هاں اس نام کے ایک لڑکے کا سنا تو تھا جو سمندر میں ڈوب کر مر گیا تھا
اس بات پر اوراشیما کی حیرانی اور حالت کو جاپانی زبان میں محاورے کے طور پر بولتے هیں
مثلاً ایک سڑک سے چند سال بعد گزر هو اور وهاں عمارتیں هیں عمارتیں بن چکی هوں تو
کهتے هیں میری تو اوراشیما تارو والی حالت هو گئی
که زمانه هی بدل چکا تھا
میری بھی کچھ یهی حالت هوئی
که مسالے خریدنے تھے
عمران کے خلال فوڈ نما ریسٹورینٹ پر گیا تو سوچا که کھانا بھی کھاتے چلے جاتے هیں
ٹی وی پر مولوی لگے تھے تغرے چل رهے تھے
عمران کا بھائی پوچھنے لگا که مولوی هی چلنے دوں یا
خبریں دیکھیں گے؟
مجھے پاک ٹی وی دیکھنا کم هی نصیب هوتا هے بلکه
سالوں سے دیکھا هی نهیں هے
پاکستان بھی گیا تو
کچھ بجلی کی کم اور کچھ دوسری مصروفیات
اور کچھ همارے گھر میں کیبل کی کمی
ٹی وی پر پروکرام چل رها تھا
جرم بولتا هے
میری بھی حالت اورا شما تارو والی هو ئی
که زمانه هی بدل چکا هے
سنسنی انگیز طرزکلام
پراگنده خیالات
یه کیا دیکھایا جارها هے لوکاں کوجی؟
مجھے محسوس هوا که
پروگرام دیکھانے والوں کے ذہن بھی واضع نهیں هیں که وه لوگان کو بتانا کیا چاهتے هیں
ایک خبر میں مجرموں کو مظلوم بنا کر پیش کیا چارها هے تو دوسری میں پولیس کو بیوقوف
تیسری میں قانون کی بے بسی
تو چوتھی ميں قانون کو ظالم بنا کر پیش کیا جارها هے
اور هر بات پر لقمه دیا جارها هے !ـ
تو
پھر
جرم بولتا هے!!!ـ
اور یه انداز بیاں
یه سنسنی خیزیان
لگتا هے پنجابی فلموں کی انڈسٹری کو تباه کر دینے والے مکالمه نگاراور کہانی کار
اور دوسرے فنکار مل کر اج کل میڈیا چلا رهے هیں !!ـ
اچھے خاصے مرد
خاور کی سوچ کو پریشان کرکے رکھ دیا هے جس چیز نے اس کو روز دیکھنے والے
کس سوچ کے مالک هوں گے؟؟
سوچ کی پریشانی هے که
زلف پریشان کی طرح گلیان سڑکیں ، شهر ابادیاں
هر چیز پریشاں هے
الجھی هوئی سوچ هے که هر چیز الجھی هوئی هے
که
سلجھی هوئی هوئی کوئی چیز بھی هوگی پاکستان میں ؟؟
هندو ، مسلمانوں کو بیوقوف سمجھا کرتا تھا
پاکستان بنا کر
هم نے ساٹھ سالوں ميں هندو کا نظریه صحیع ثابت تو نهیں کر دیا کهیں؟؟
اورا شیما تارو والی حالت هے جی میری!!!ـ

4 تبصرے:

یاسر خوامخواہ جاپانی کہا...

اعلی غیر ملک سے تعلیم یافتہ میڈیا کا اسٹاف اور مالدار مالکان جو ہنس کی چال چلنے کی ناکام کو شش کر رہے ہیں۔یورپ ۔امریکہ ، اور جاپان میں معاشرے کی اصلاح اس طرح کی پروگرامز سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور گولڈن ہاور میں کمرشل سے کمایا جاتا ہے۔
جس ملک میں بجلی ہی نا ملے ، ابھی بھی گھروں میں ٹی وی نا ہو،،،۔۔۔میرے خیال میں ایسے میڈیا والے ذہنی مریض ہی ہو سکتے ہیں۔
جو مغربی طرز کا میڈیا بنانے کے خبط میں مبتلا ہیں

ali کہا...

بھائی جان اس بکس میں کیا تھا؟؟

انکل ٹام کہا...

یار کہانی تو پوری کر دو ۔۔۔ یا اسکا کوئی انگریزی ترجمہ عنایت فرماو ،، اگر مانگا مل جائے اس کہانی کا تو بلے بلے :ڈ

راشد کامران کہا...

محترم میڈیا وغیرہ پر تو روز ہی تبصرے ہوتے ہیں لیکن جس طرح آپ نے لوک کہانی سے بات نکالی اور مدعا بیان گیا۔۔ بہت ہی شاندار۔

Popular Posts