پیر، 30 نومبر، 2009

تاریخی لوگ

پاکستان میں کبھی کسی تاریخی مقام پر جانا هو تو کچھ لوگوں نے وہاں دیواروں پر پیچ کس کے ساتھ اپنے نام لکھے هوتے هیں ـ
ان لوگوں کا خیال هوتا ہے که اس طرح وھ تاریخ ميں شامل هوکر تاریخی لوگ بن گئے هیں ـ
ملک اشرف سکنه تلەاڑا کلاں
اور مزے کی بات ہے که تلھاڑے میں بھی ان صاحب کو کوئی اشرف کے نام سے نهیں جانتا هوتا
سب کو ان کے نام اچھو کا هی معلوم هوتا ہے
بس جی کچھ اسی طرح اج کل تارکین وطن میں سیاسی سرگرمیوں سے لگتا ہے
نیٹ پر فوٹو لگے هیں
بیانات لگے هیں
نام لکھے هیں
لیکن هوتا اس طرح ہے که میں اپنے گاؤں جاؤں تو کتنے هی جوان لڑکے ایک دوسرے سے پوچھتے هیں یه کون ہے ؟
تڑوائیوں کے گھر کوئی پرونا (مہمان)آیا ہے ؟؟
تو کوئی بڑا ان کو بتاتا ہے
نئیں اوئے یه خاور ہے خاور بیٹریاں والا
جو باہر چلا گیا تھا
اچھا!!!!!!!!!!!!!!ـ
یه اچھا بھی کچھ اس طرح کی هوتی ہے
هو گا کوئی!ـ
سانوں کی !!ـ
وھ کسی مراثی سے پوچھا که تمہاری کوئی ملکیت بھی ہے گاؤں ميں
تو اس نے کہا جی کیوں نہیں
گاؤں کا سب سے چھوٹا زمین دار هوں لیکن جب لتر پڑنے هوتے هیں تو ان میں میرا حصه آدھا هوتا ہے
پنڈوں تیہرواں حصه تے لتریں آدھ
بمعنی کمائی سے 13 واں حصه اور جب جوتیاں پڑیں کی تو آدھی کھانی پڑیں گی
جیسا محاورے کچھ اسی لیےبنے هیں ـ
آپ کا کیا خیال ہے ایسے لوگوں کے متعلق
جو باهر کے ممالک مین بڑھ بڑھ کر سیاست میں حصه لیتے هیں اور اگر ان میں سے کسی کا پناھ گزین ملک کا ویزھ کینسل هونے کا معامله بن جائے تو ان رویه کچھ اس طرح کا هوتا ہے که مجھے کیوں اس جہنم میں پھینکنے جارہے هوں
جهاں سے میں بڑی مشکل سے نکلا تھا

جمعہ، 27 نومبر، 2009

پرانے زمانے میں

جاپان میں کچرا پھینکنے کے بھی اصول هیں که گھر کا عام کچرا هر دوسرے دن باہر مخصوص جگه پر رکھ دیتے هیں ، لیکن شیشه ، ٹن کے ڈبے ، پلاسٹک کی بوتلیں وغیرھ مہینے ميں ایک دفعه ایک جگه پر اکٹھی کی جاتی هیں اور اور ہر مہینے مقامی لوگوں کی باری هوتی هے یهاں گھڑے هو کر محلے والوں کے کچرے کو وصول کرنے کے لیے
تو جی نومبر میں میری باری تھی بیس نومبر کو !!ـ
اور میرے ساتھ تھے ایک ریٹائیر سرکار ملازم آکی یاما صاحب ـ
آکی یاما صاحب کہنے لگے که یه جو جاپان کو اج اپ امیر دیکھ رهے هیں یه ہمشه سے ایسا نهیں تھا پرانے زمانے ميں کسان لوگ اپنی بچیوں کو بیچ دیا کرتے تھے !!ـ
کب کی بات ہے جی یه ؟؟ میں نے پوچھا تو انہوں نے بتایا که میجی کے زمانے سے پہلے کی بات ہے
میجی شہنشاھ کا زمانه 1857ء سے شروع هوتا هے اس سے پہلے جاپان ميں جاگیردرای نظام هوا کرتا تھا میجی صاحب نے زمینوں کی اصطلاحات کی تھیں اور فرض تعلیم کا نظام چالو کیا تھا
فرض تعلیم ؟
جی هر بچه چاھے وھ معذور هی کیوں ناں هو اس کو چھٹی جماعت تک سکول جانا هی هو گا
آکی یاما صاحب نے بتایا که جاگیردار کسانوں سے اپنے حصے کا اتنا وصول کرتے تھے که کسان کو کھانے کے بھی لالے پڑ جاتے تھے
میں نے ان کو بتایا که جی اپ هسٹری کی بات کرتے هیں پاکستان میں اج بھی یه هو رها هے که کچھ لوگوں نے زمینوں پر قبضه کر رکھا ہوا ور انہوں نے بہت سے لوکوں کو غلام بنا رکھا ـ
اگی یاما صاحب یه سن کر خاموش سے هو گئے تھے که انہوں نے سوچا هو گا که کسی کے ملک کے متعلق بات کرتے هوئے کوئی معیوب بات منه سے ناں نکل جائے
آج پاکستان مين کچھ لوگوں کی اتنی زمین ہے که ان کو اس زمین پر پیدل دورھ کرنا پڑ جائے تو ان کو دل کا دورھ پڑجائے
اور کچھ لوگ زمینوں پر قبضه کرنے کے لیے پاگل هوئے جاتے هیں
جیسے که پاک فوج کے بڑے افسر لوگ
اور جاپان جہاں كمرشل زمین دنیا کی مہنگی ترین زمین هوتی ہے
یهاں اج بھی زرعی زمین کوئی بھی بندھ تھوڑی سی کاغذی کاروائی کے بعد چار بیگہ زمین مفت حاصل کرسکتا ہے
جی هاں زرعی زمین ناں که کمرشل
جاپان مين زمین کو زمروں میں بانٹ دیا گيا ہے جیسے که دو بڑے زمرے هیں زرعی اور غیر زرعی زمین اس کے بعد غیر زرعی زمین کے بھی زمرے هیں لیکن صرف زرعی زمین زراعت کے لیے جاپان کے شهری لوگوں کو الاٹ هو جاتی هے
اور زرعی زمین کسی بھی ملک میں کھانے میں خود کفالت کی قدرت کی طرف سے گارنٹی هوتی هے
لیکن جی گارنٹی کی کچھ شرائط هوتی هیں
جن میں سب سے بڑی شرط دین پر چلنا هوتی هے
یهاں دین سے مراد پاک لوگوں کا مذہب نهیں هے دین سے مراد سسٹم ہے
اور یه دین امریکی دین بھی هو سکتا هے یوربی دین بھی اور جاپان دین بھی
لیکن پاک دین (سسٹم) کیا ہے ؟؟
بے چارے ذہنی معذور لوگ جن کو دین کے لفظ معنے بھی نهیں آتے هیں اور دین دین کی تکرارکیے جاتے هیں
چھڈو جی یه کیا بات شروع هو گئی
ادیان کے متعلق پھر کبھی سہی

پیر، 16 نومبر، 2009

اوباما کا رکوع

جھکنے والے رفعتوں کو پا گئے
ہم خودی تلاش کر رهے هیں
امریکی صدر بارک اوباما کا شہنشاھ جاپان کو رکوع
یہاں رفعت سے مراد وھ والی رفعت نهیں هے جو سارے پنڈ کی پسندیدھ تھی اور چنگی وی سی ـ
شہنشاھ جھکا نهیں کرتا لیکن صدر اوباما کے جھکنے سے بھی اوباما کی شان میں کوئی فرق نهیں پڑا ہے
که خاندانی لوگ پنجاب میں بھی بزرگوں کے سامنے جھکتے هیں ـ
جاپان جس کو امریکه نے شکست دی تھی جی هاں شکست اور فتح ان کو هی ملا کرتی هے جو کسی معرکےمیں پڑیں ـ
گرتے هیں شہسوار هی میدان جنگ میں
وھ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے
ایک جاپانی سیانے نے کها تھا
هم جنگ هارے هیں لڑائی نهیں
جی هاں جاپانی اتحادی افواج کو مار رهے تھے دوسری جنگ عظیم میں
اور پرل ہاربر والے حملے میں استعمال هونے والے هوائی جہاز جاپان کے اپنے تیار کردھ تھے
امریکه ایک عظیم ملک هے ، جس کے صدر کو جھکنا آتا ہے
اس لیے لوگ اس کے سامنے جھکتے هیں
پاکستان کی اشرافیه کو صرف اکڑنا اتا ہے اس لیے جب یه اشرافیه امریکه جاتی هے تو ان کو ائیر پورٹ کے عملے کی اکڑ کا سامنا کرنا پڑتا ہے
بس تو ایک کلچر ہے
ہتھی پے جاؤ ( هاتھا پائی) کمزورں کے اور
پیری بے جاؤ ( پاؤں پڑ جاؤ ) طاقتوروں کے
وھ ہمارے محلے ميں ایک مولوی صاحب کا گھر تھا ان کے بیٹے میرے لوگوں کو بیوقوف سمجھا کرتے تھے
بے دھڑک منه پر کہـ دیا کرتے تھے جی هم تو گدھوں میں گھرے پڑے هیں ـ
اور کمہاروں کا رویه ان کے ساتھ یه تھا که جی مولوی کے بچوں کا ذہنی توازن ٹھیک نهیں هے
اس لیے ان کی باتوں کو ہنسی میں اڑا دیا کرتے تھے
لیکن یارو مولوی کے بچوں سے کمہار هر طرح سے طاقتور تھے اس لیے ان کی باتوں کو ہنسی میں اڑا سکتے تھے لیکن جب پاکستان کی عوام کی طرح لوگ کمزور هوں اور مولوی کے بچوں کی ذہنیت والے لوگ حکمران تو ؟؟ تو دل بڑا دکھتا ہے

بدھ، 11 نومبر، 2009

کہیں یه بغاوت تو نهیں

دل تو چاہتا ہے که کچھ لطیفے لکھیں کچھ مذاق هو لیکن بندھ اپنے ماحول سے بیگانا نهیں ره سکتا
پاکستان کے حالات میں حکومتی اداروں پر حملے هونا سمجھ میں انے والی بات ہے
که حکومت اور عوام دو مختلف چیزیں بن چکے هیں
پولیس کو لوگ اپنے میں سےسمجھتے هی نہیں هیں جن کے رشتے دار پولیس میں هیں وھ بھی اپنے رشتے دار کی حد تک جب دیکھتے هیں تو سپاہی لوگ بھی لوگ هی لگتے هیں لیکن جب پولیس کا نام آتا ہے تو ایک دہشت کی علامت ، پریشانی کی علامت ، تنگ کرنے کی علامت بن چکی ہے
جس اس طرح کے حالات جیسے که پاکستان کے هیں دنیا کے کسی بھی ملک میں معاشرے میں بن جائیں ، جسے که بے روزگاری ، بے امنی ، مہنگائی ، بے انصافی ، اپنی چاردیواری میں بھی غیر محفوظ،
اور حکومت لوگ عیاشیوں میں لگے هوئے هوں بڑے بڑے محلوں میں رہائیش رکھیں ، آپس میں دعوتیں هوں اور عام لوگ آٹے کی لائینوں میں لگے هوں
تو لوگ بغاوت کر هی دیا کرتے هیں
جو پہلے غیر منظم هوتی هے اور آہسته آہسته منظم بھی هوتی چلی جاتی ہے اور بھیڑ بھی ملتی جاتی ہے
اور حکومتی لوگ اس کو چند شر پسندوں کا انتشار پھلانا کہتے هیں
ماضی نزدیک میں اس کی مثال مشرقی پاکستانیوں کی مکتی باہنی کی بغاوت اور اس کی جیت کی هے
ایران میں شاھ کے مخلفوں کی اور ان کی جیت کی هے
ان دونوں مثالوں میں حکومت آخر تک ان باغیوں کو تسلیم نہیں کرتی رہیں هیں
اور جب پلیٹن میدان والا واقعه هوا تو زمانے بھر نے حکومت کی شکست دیکھی
شاھ کو خبر کے لیے جگه بھی نہیں مل رهی تھی

تو اج اگر پاکستان میں عام لوگ حکومتی اداروں پر حملے کرنے لگے هیں تو اس میں اچھنبے والی بات کوئی نهیں هونی چاهیے
لیکن کیوں که طاقت اور حکومت اور میڈیا جن کے ہاتھ میں ہے وھ حملے کرنے والوں سے اپنے سیٹ اپ کو اپنی عیاشیوں کو بچانے کی کوشش میں لگے هیں اور حملے کرنے والوں کو طرح طرح کے نام دے رهے هیں
لیکن عام بندے کو سوچنے کی ضرورت ہے که گوریلا اپنی زمین کے عام لوگوں کی حمایت کے بغیر چل هی نهیں سکتا
اور جس کو اپنے لوگون کی حمایت حاصل هو وهی تو اصلی عوامی نمائندھ هوتا ہے
ناں که
اتخابات میں جھرلو پھیر کر الیکشن جیتنے والا!!ـ

اب جی کسی نے یه کام شروع کردیا ہےکه حکومتی اهلکاروں پر حلے کرنے والوں کو ظالم مشہور کرنے کے لیے
عام مقامات پر بم دھماکے کرواکے معصوم لوگوں کو مارا جائے تاکه حکومتی اداروں کو معصوم بنا کر پیش کیا جائے
کیوں که باغی لوگ بم دھماکے کرکے حکومتی لوگوں کو مارتے هیں اس لیے بم دھماکے کروا کے عام لوگوں کو ماروتاکه عوام میں یه تاثر پیدا کیا جائے که بم دھماکے تو کرهی باغی رهے هیں یه بھی ان باغیوں کا هی کام ہے
کسی بھی واردات کے مجرم کا تعین اس بات سے کیا جاتا ہے که فائدھ کس کو هوا
تو جی هر دھماکه اپنی جگه ایک واردات ہے
اور ایک ایک واردات میں کسی کو نقصان اور کسی کو فائدھ هوا ہے اس کا سوچ لیں تو آپ کو معلوم هو جائے گا
یه کوئی گہری سازش چل رهی هے
جس طرح کے حالات پاکستان میں چل رهے هیں یه کیا افسروں کو فرص شناسی کی تبلیغ سے ٹھیک هو جائیں گے ؟؟
نہیں جی اب اداروں کو دوبارھ ڈگر پر لانے کے لیے ٹوٹل سرجری کی ضرورت ہے
جی ٹوٹل سرجری !!!ـ

پیر، 9 نومبر، 2009

پیسے کتھوں آؤن گے

پچھلی پوسٹ میں میں نے حساس ادارے کے ایات لکھنے اور ان کے آگے ڈالر کا نشان بنانے کی طرف اشارھ کیا تھا
که ان کو ڈالر کے هی خواب آتے هیں
آپ پاکستان کے کسی بھی اربار اختیار سے پوچھ لیں که ترقی کے کام کیوں نهیں کرتے
تو ان کا سوال نما ترت جواب هوتا هے
پیسے کتھوں آؤن دے ؟؟
میں تو جی چپ هی هو جاتا هوں که هم دونوں میں سے ایک ضرور جاہل ہے
میں اس لیے جاہل هوں که مجھے کار حکمرانی کے رموز معلوم نهیں هیں
یا پھر سامنے والا صاحب اختیار که اس کو ایک ایک گاؤں چلانے کا بھی معلوم نهیں هے اور ملک چلانے کے کام پر لگا دیا گیا هے
مثال کے طور پر ایک گاؤں ہے جس کا نام رکھ لیتے هیں جاٹوں کا پنڈ
اس میں جاٹوں نے فیصله گیا که هم اپنے اپنے لڑکوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کریں گے اور بیبیاں گھر سے کھانا وغیرھ بنا کر لائیں گی اور کھیتوں میں بھی اگر هو سکے تو ہاتھ بٹائیں گی
اور گاؤں کے ہنر مند لوگوں کو هماری مدد کرنی هو گی اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق
لوہار لوہے کے سارے کام کرے گا
تیلی سرسوں اور دوسرے بیجوں سے تیل نکالے گا
کمہار باربرداری کا کام کرے گا
اسی طرح سے سب لوگ کام کریں گے
که جو جس کا کام هے وہی کرے گا
جس کے لیے جاٹ اس کو اپنے اناج سے اتنا حصه دیں گے که اس کو کھانے کی پریشانی ناں هو
کھیتوں سے اٹھنے والی کپاس سے حصه که کٹروں ميں خود کفیل هو
گنے میں سے حصه که میٹھے ميں خود کفیل هو
سبزیوں میں حصه که ہانڈی چلتی رهے
لیکن اس کی عوض میں سب کو اپنے اپنے کام ناں صرف جاٹوں کے لیے بلکه دوسرے ہنرمندوں کے لیے بھی کرنے هوں گے
اس گاؤں کو سوائے نمک اور لوہے کے باہر سے کوئی چیز نهیں خریدنی هو گی
که گھر کے چاول ، گندم ، جو ، باجرھ ، مکئی ، سرسوں ، آلو ، هو گی
انڈوں اور کوشت کے لیے مرغیاں پالی جائیں گی جو که ہر گھر کی آپنی اپنی بھی هو سکتی هیں یا پھر ایک گھر کی ڈیوٹی اس پر لگا دی جائے گی که سب کی مرغیاں پالے اور اس کو بھی سب کی طرح سے بانٹ کر سب چیزیں ملیں گی جو اس کےروٹی کپڑے اور مکان کے لیے کافی هوں گی
کچھ اس طرح سے که بغیر پیسوں کے باٹر سسٹم په ایک گاؤں چل جائے گا
اور یه کوئی بڑی عقل کی بات نهیں هے
ہمارے سارے هی گاؤں آج سے کچھ دەایاں پہلے اسی طرح چلا کرتے تھے
بس جی پھر یه هو گا که ابادی کے بڑھنے سے کاموں کو کنٹرول رکھنےکے لیے دفتری نظام بنانا پڑے گا جس کے لیے اپنے هی پڑھے لکھے لڑکے کام کر لیں گے
جو آہسته آہسته اپنی تعلیم کی وجه سے نفیس کپڑے نفیس کھانے اور نفیس کاموں کی وجه سے "بڑے " لوگ بن جائیں گے
اور کھیتوں میں کام کرنے والے ورکشاپوں میں کام کرنے والے گندے کپڑے پہنے لوگ " عوام " بن جائیں گے
اب عوام سے تعلق سے کتراتے هوئے یه لوگ اپنا ایک علیحدھ سٹیٹس بنا لیں گے جن میں اپس کی رشته داری اور میل ملاپ سے نفاست کا گند(غریبوں کے ٹیسٹیکل آرتھ کرکے) پھلاتے پھریں گے اور کام دھندے پر کنٹرول کم هو کر پیداوار میں کمی هو گی
جس کے لیے امریکه سے مدد مانگ لی جائے گی اور پھر
ان بڑے لوگےں کو یه بھی بھول جائے گا که ان کو کسی کام کے لیے کن لوگوں نے رکھا تھا
اور نظریں امریکه پر هی لگی رہیں گی که کب مدد آئے اور نفیس لوگوں کے نفیس کام چلیں
اس لیے جب عوام میں سے کوئی خاور اگر پوچھ هی بیٹھے گا که ترقیاتی کام کیوں نهیں کرتے تو
ان کا جواب نما سوال هو گا
پیسے کتھوں آؤن گے

منگل، 3 نومبر، 2009

ڈالر کا تصور

یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جن کو تو نے بخشا ہے ذوق کمائی
کل ایک دوست بتا رها تھا که پاک فوج کے ترجمان نے مخیر حضرات کو توجه دلائی هے
بقول شخصے دے جاسخیا راھ خدا
اور انہوں نے یه بھی کہا هے که کسی بھی علاقے کے لوگ اپنے نزدیکی کور کمانڈر کو دو سکتے هیں ـ
بقول شخصے عوام کی سہولت کے لیے
میں بھی لکھنا چاھتا تھا لیکن جی وھ بی بی سی والے حسن مرتضی نمبر لے گئے
که
اچھو کے باز گھر کی مرغیوں پر هی لپک لپک کر خون گرم رکھتے هیں
کیری لوگر بل ؟ جب تک پاک فوج کو ملتی رهی تو امداد !!ـ اور جب کسی اور کو ملے گی تو غیرت کا سوال بن گیا هے
یه دیکھیں که ان کو ڈالر کے کتنے خواب آتے هیں ـ


یه اللّه عالی شان صاحب کے نام کے بعد ڈالر کا نشان
یه ڈالر کا نشان ہی ہے ناں جی؟؟
بلی کو چھچھڑیاں دیان خواباں
اورعربی بھی کسی نے کیا لکھی ہے ، یه کونسا خط هے ؟
اور یه نعرھ تو حج پر کعبے میں لگایا جاتا ہے ناں جی ؟
بی بی سی نے لکھا ہے که فوج کا کہنا هے آیات لکھنے کا مقصد عام لوگوں کی حمایت حاصل کرنا ہے
یعنی که عام لوگ فوج کو پسند نهیں کرتے هیں
تو جی پھر فوج کس قوم کی فوج هے ؟؟

Popular Posts