منگل، 15 جولائی، 2008

استاد فُجی مورا

ایک سوال تھا که
آپ کس شخصیت سے ملنا چاهتے هیں ؟
ان دنوں میں جس شخصیت سے ملنا چاهتا هوں وه هیں جی
فُجی مورا سینسے!ـ
سینسے کهتے هیں جاپانی میں استاد کو !ـ
فوجی مورا صاحب ایک سائنسدان هیں !ـ
تھوچی گی کین میں ناسو شہر کے رہنے والے هیں ـ
ان کو شمالی جاپان کا ایڈیسن بھی کہتے هیں ـ
فجی مورا صاحب کی کتنی هی چھوٹی چھوٹی ایسی ایجادات هیں که جو روزمرھ کی زندگی کو اسان کرتی هیں
انهوں نے ایک ایسی فریج ایجاد کی ہے جو که بغیر بجلی کے چلتی هے ـ
جی بغیر بجلی کے !ـ یعنی که شمسی بجلی بھی استعمال نهیں هوتی اس میں ـ
میں اس تکنیک کی باریکی کو تو نہیں سمجھتا لیکن یه کچھ اس طرح کی تکنیک ہے
جیسی که همارے کمہار لوگ ایک برتن جس کو پنجابی میں چجر کہتے هیں میں استعمال کیا کرتے تھے ـ
چجر ایک دیسی قسم کی فریج هی هوا کرتی تھی
یه برتن جو که گھڑے کی هی شکل کا هوتا تھا مگر اس میں استعمال کی گئی مٹی کو ایک خاص طریقے سے گوندھ کر بنایا جاتا تھا که یه برتن کتنی بھی دھوپ میں کیوں نه رکھا هو اس میں پڑا پانی حیران کر دینے کی حد تک ٹھنڈا هوا کرتا تھا
اسی طرح فجی مورا سینسے کی بنائی هوئی یه فریج اپنے اندر کے درجه حرارت کو پانچ درجه سینٹی گریڈ پر برقرار رکھتی هے ـ
پچھلے دنوں فجی مورا سینسے نے اس طرح کی ایک فریج منگولیا کے دیهاتی علاقے میں بنا کر دی هے
جس کا سائیز کچھ مربع میٹر تھا
دنیا کے چھبیس ممالک سے فجی مورا صاحب کو دعوتیں ملی هوئیں هیں که ان کے ملک میں بھی کچھ بنا کر دیں ـ
ان ممالک میں پاکستان شامل نهیں هے
کیونکه پاکستان کے حکومتی لوگوں میں اتنی عقل هوتی توط اج کیا ملک کا یه حال هوتا ؟؟
بہرحال
مجھے اگر مقدور هوتو میں چاهتا هوں که فجی مورا سینسے مجھے ایک کولڈ سٹوریج بنا دیں پاکستان میں ناں بجلی کا خرچا اور ناں لوڈ شیڈنگ کو چخ چخ ـ
ہینگ لگے ناں پھٹکڑی رنگ بھی آئے چوکھا
لیکن اس کو چلائے گا کون؟؟
فجی مورا سینسے کی ایک تصویر


مجھے ابھی یہی ایک تصویر ملی هے

کچھ دن پہلے کی بات ہے که ٹی وی پر ایک پروگرام چل رها تھا
جس میں جاپانی مہارتوں کی بات هو رهی تھی
میں نے اس پروگرام کو شروع سے نہیں دیکھا
لیکن جہاں سے میں نے دیکھنا شروع کیا تھا اس میں بتا رهے تهے که
جاپان کے پلوں پر جلنے والی بجلی کیسے پیدا هوتی هے ـ
یاد رہے که جاپانی لوگ بجلی کے استعمال میں انتہائی کفایت شعاری سے کام لیتے هیں ـ
جاپان میں پلوں پر ایک محراب سی بنی هوتی هے جو که پل کا هی ایک حصه هوتی هے اور پل کا سہارا بھی ـ
اس محراب نما پر لائیٹیں جل رهی هوتی هیں ، نه صرف رات کو بلکه اگر دن کو بھی بادل گھر کر آئیں تو یه لائیٹس جل جاتی هیں

جاپان میں پلوں پر پل کے نچلی طرف ایک ڈبه لگا دیتے هیں جو
گاڑیوں کے گزرنے سے جو تھرتھراهٹ هویتی هے اس سے بجلی پیدا کرتا ہے
اور اس کے ساتھ لگی بیٹریاں بجلی کو محفوظ رکھتی هیں
یه تکنیک ابھی تک اس جاپانی کمپنی کا کاروباری راز ہے
جو که یه کسی کو دینا نہیں چاهتے
لیکن سانوں کی جی ؟؟؟
ہمیں تکنیک کی ضرورت هی نہیں ہے
هم تو جی تکنیشین کو کمّی اور کمینه کهتے هیں ناں جی
اس لیے جاپان کے لوهاروں کو ہم کیا سمجھتے هیں ـ
کتنی بھی ترقی کرلیں هیں تو لوهار هی ناں جی ؟؟

جاپان کی وزارت خزانه کے ملازمین کی رشوت کا بڑا چرچا چل رها ہے ٹیلی وژن پر
اس وزارت کے ملازمین کو حکومتی خرچے پر ٹیکسی استعمال کا استحقاق حاصل هے اس لیے یه لوگـ لمبے سفر کے لیے بھی ٹیکسی استعمال کرسکتے هیں
اور ٹیکسی ڈرائیور بھی اسیے گاهک چاهتے هیں جو که ایک هی دن میں کچھ سو ڈالر کا بل بنا دیں ـ
اس لیے ٹیکسی ڈرائیور لوگ ان ملازمین کو بئیر کی پیشکش کیا کرتے تھے جو که یه ملازمیں قبول کر لیا کرتے تھے
پھر اہسته آہسته یه هونے لگا که حکومتی ملازمین خود سے پوچھنے لگے که
بئیر بھی دو
اور کچھ ٹیکسی ڈرائیور وں کو تو نقدی کے لیے بھی پوچھا جانے لگا
یه جاپان هے کمیوں(ہنر مندوں) کا ملک که فوراً رشوت لینے اور دینے والوں کو قابو کر لیا گيا ہے ـ

جاپان کے جنوبی علاقے کی ایک کین او ای تا کین میں محکمه تعلیم کو ملازمین بھی رشوت لیتے هوئے پکڑے گئے هیں
یه لوگ سکولوں میں استادوں کی تعیناتی کے لیے رشوت لیا کرتے تھے
اس معاملے کو تو جاپانی لوگ بڑی هی سنجیدگی سے لے رهے هیں که محکمه تعلیم والوں نے کہیں ایسے استاد بھرتی نهیں کر لیے که جو اس بات کی اهلیت نہیں رکھتے
اب کیا یه جارها هے که ان رشوت لینے والوں کو تو گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے تعینات کیے گئے سب استادوں کو بھی دوبارھ چیک گیا جارها ہے که یه لوگ واقعی استاد بننے کے اهل هیں یانهیں ؟؟

اولمپک میں سوئمنگ سوٹ کا معامله کچھ اس طرح چل رها تھا که جاپان کے تیراک جو که اولمپک میں شمولیت کی اهلیت رکھتے هیں ان کو سپیڈو نام کا سوئیمنگ سوٹ پسند تھا
لیکن اولمپک کمیٹی اس کو قبول نهیں کررهی تهی که جو سوٹ اولمپک کمیٹی کے منظور کردھ هیں صرف وهی استعمال کیے جاسکتے هیں ـ
مگر ان تیراکوں کا دعوھ تھا که سپیڈو کے سوئیمنگ سوٹ سے ان کی سپیڈ بڑھ جاتی ہے
کتنے هی ٹیسٹوں اور امتحانوں کے بعد اب اولمپک کمیٹی نے یه بات منظور کر لی ہے که
تیراک کوئی سا بھی سوٹ استعمال کر سکتے هیں ـ
تو مجھے انیس سو چونسٹھ کے اولمپک میں ننگے پیر بھاگ کر میراتھن میں گولڈ میڈل لینے والے افریقی کھلاڑی حبیبی صاحب یاد ائے
شائید ان کو بھی اسی لیے ننگے پیر بھاگنا پڑا تھا که حبیبی صاحب اولمپک کمیٹی کے منظور کردھ جوتے افورڈ نهیں کرسکتے تھے
یا
پھر حبیبی صاحب بھی ہمارے پینڈو لوگوں کی طرح ننگے پیر بھاگنے کے عادی تھے
آپ نے دیکھا هو گا که ہمارے پینڈوں کو جب بھی بھاگنا پڑے جوتے اتار کر ھاتھ میں پکڑ لیتے هیں ـ

3 تبصرے:

میرا پاکستان کہا...

بہت معلوماتی باتیں بتائی ہیں آپ نے۔

گمنام کہا...

یہ شائد وہی تکنیک ہے جو افریقہ میں استعمال کی گئی تھی۔ اس میں گھڑے کے اندر گھڑا ہوتا ہے اور دمیان میں شاءد خس بھری گئی تھی۔ پکا یاد نہیں۔ لیکن یہ یاد ہے کہ ایک بڑے گھڑے کے اندر چھوٹا گھڑا رکھا گیا تھا۔ اب گھڑے اگر دس دس فٹ کے بھی ہوں تو ہونگے تو گھڑے ہی۔
ان گھڑوں میں افریقہ کی شدید گرمی کے باوجود رکھی گئی اشیا تروتازہ تھیں۔ وہ گھڑے بھی باہر کے کسی بندے نے وہاں کے لوگوں کے لءے بنائے تھے۔

گمنام کہا...

شکریہ خاور صاحب اس تحریر کیلیئے۔

بہت خوشی ہوئی استاد فجی مورا کے بارے میں پڑھ کر، اسی طرح کے 'رندوں' کی وجہ سے دنیا خوبصورت ہے وگرنہ ابنائے زر و ہوس کی بھی کوئی کمی نہیں دنیا میں۔

مجھے تو انکی تصویر بھی بہت اچھی لگی، کیا نورانی چہرہ ہے۔

Popular Posts