ہفتہ، 26 اگست، 2006

ڈاکٹر خان کو رہا کرو !ـ

اچھو بوتا ٹانگه چلایا کرتا تها ـ
اب پته نہیں کہاں رہتا هے مگر اسّی کی دهائی میں اس کے خاندان کی رهائش گوجرانوالھ کے ایک قصبے تلونڈی موسے خان میں تهی ـ
دو میٹر سے ذیاده قد اور بڑے سے ڈهیل ڈهول کے اچهو کو بوتا کا خطاب ملا هوا تها ـ
اونٹ کے نر بچے کو بوتا کہتے هیں ـ
بس اچھو بوتا بهی اپنے ڈهیل ڈہول میں ایک بوتا ہی تھا ـ
اچهو کا باپ مالک چیمه بهی ٹانکه چلایا کرتا تها ـ
مالک چیمه ایکـ اچھا کوچوان تها ـ
مالک چیمه کا تلونڈی کے کمہاروں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھاـ اس وجه سے گھوڑوں اور گدھوں کے متعلق جانکاری رکهتا تها ـ
ایک دفعه اچهو بوتے نے ایک گهوڑا خریدا ـ
اچهو کو اس سودے میں دهوکا هوا تها ـ کسی نے بیمار گھوڑا اچهو کو مہنگے داموں بیچ دیا تها ـ
لوگوں کے کہنے سے شائد اچهو کو بهی احساس هو گیا هو مگر انسلٹ کے احساس سے اپنی غلطی مان هي نہیں رها تها ـ
پیپل والی موٹر کے پاس اچھو گهوڑا لے کر جارها تها میں بهی وهیں کهڑا تها اچهو کا باپ مالک چیمه بهی آگیا مالک نے اچهو سے کہا '' اوے اچهو یه کوئی تمہیں تهک لگا گیا هے ''ـ
اچهو نے جو جواب دیا تها وه ان تلونڈي کے لوگ محاورے کے طور پر استعمال کرتے هیں ـ
اچهو نے کہا ''ابّا جی بہن ....... تہانوں نہیں پته'میں نے ٹهیک کیا هے''ـ

دوسرا کردار بهی اس گاؤں تلونڈی موسی خاں کا تها ـ
اصغر جٹ ـ اصغر جٹ گڈها چلایا کرتاتها ـ
پنجاب کے دیہاتوں میں پرانے زمانے میں جو گڈھ هوا کرتے تهے جن کے آگے دو بهینسے جوتے جاتے تهے ـ
بس وهي گڈھا ـ
اصغر جٹ کا باپ رعشے کا مریض تها ـ
اسّی کي دهائي میں اگر کسي کا تلونڈي سے گذر ہوا هو تو اس نے دیکها هو گا که جب تلونڈی کے لاری اڈے سے کمہاروں کے محلے کی طرف جائیں تو سڑک کے کنارے چارپائي ڈال کر ایک رعشے کا مریض بیٹها هوتا تها ـ
یه تها اصغر جٹ کا باپ ـ
یه جٹ اکثر اپنے باپ کو مار کرتا تها ـ
ایک دن اس نے اپنے باپ کو گرایا هوا تها که ساتھ والے گاؤں ہوئے والی کے نمبر دار نے اس کو کالر سے پکڑ کر کهینچا اور باپ کے ساتھ اس بدتمییزی سے منع کیا
تو
جٹ نے کہا
پیچهے هٹ جا چاچا لمبڑا مجهے نه چهیڑ که میں تمہاری باپ کی طرح عزت کرتا هوں ـ
باپ کو نیچے گرا کر مارتے هوئےجٹ کا باپ کی طرح عزّت کرنے کا دعوه سن کر
چاچے لمبڑ نے کہا
اگر تو میرے ساتھ اس طرح کرے گا تو میں تمہاری ماں کو بهی ..... گا ـ
تیسرا کردار هے جی پاک فوج ـ
یه کردار بهي اچهو بوتے اور اصغر جٹ کي طرح معاشرتی اقدار کی بجائے طاقت پر یقین رکهتے هیں ـ
باپ کسی بهی گهر میں اپنے جوان بیٹے سے طاقت ور نہیں هوتا مکر باپ جب بهی جوتا اتار لے اور جوان بیٹے کو مارنا شروع کر دے آئین کے پابند بیٹے یا تو سر جهکا دیتے هیں یا پهر موقع سے فرار هو جاتے هیں ـ
مگر اچهو بوتا اصغر جٹ اور پاک فوج جیسے کردار کهر کے سربراه کو جب جي چاهے گالی گلوچ بهي کر لیتے هیں اور جب جی چاهے مار کٹا'ئی بهی کر لیتے هیں ـ
اور اگر جی میں ائے تو گھر سے بھی نکال دیتے هیں ـ
ڈاکٹر عبدلقدیر صاحبکا قصور کیا هے؟؟
معاشرتی آئین ان کے ساتھ کس سلوک کا تقاظا کرتا هے؟؟؟

2 تبصرے:

Saqib Saud کہا...

اوپر بھی نقطے لگا دیں۔۔۔

گمنام کہا...

پاکستان کا آئین میرے خیال میں یہ کہتا ہے کہ ڈاکٹر عبدلقدیر صاحب کی جتنی بھی عزت کی جائے کم ہے ۔۔

اور اگر فوجی جرنیل ان کو اپنی کسی کا رشتہ بھی دے دیں تو مضائقہ نہیں بس ڈاکٹر صاحب کے زائقے کی بات ہے آیا وہ اتنا گند پچاسکتے ہیں یا۔۔۔۔۔۔

Popular Posts