اتوار، 19 جون، 2005

اردو میڈیم کے پڑھے لوگ

اردو میڈیم کے پڑھے ہوئے لوگ
ہمارے گاؤں میں ایک ڈالکٹر صاحب ہیں ڈاکٹر یونس صاحب ۔
ڈاکٹر یونس ایم بی بی ایس،۔
ان ڈاکٹر صاحب کے خاندان میں کئی ڈاکٹر ہیں ،۔
کچھ ڈنگر ڈاکٹر اور کچھ میڈیسن ڈاکٹر اور پٹواری ، مطلب یہ کہ ڈاکٹر صاحب کئی نسلوں سے پڑھی لکھی فیملی سے تعلق رھتے ہیں ،۔
ڈاکٹر صاحب کا بیٹا گوجرانوالہ کے کسی انگلش میڈیم سکول میں پڑھنے جاتا تھا ،۔
پچھلے دنون ڈاکٹر صاحب نے اپنے اس بیٹے کو انگلش میڈیم سے خارج کروا کر گورمنٹ پرائمری سکول تلونڈی موسے خان میں داخل کروا دیا ہے ،۔
ڈاکٹر صاحب کے اس عمل سے کسی نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ
اج جب کہسب لوگ اپنے بچوں کو بڑے بڑے ناموں والے سکولوں  داخل کروا رہے ہیں ،۔
اس دور میں اپنے بچوں کو گورمنٹ پرائمری سکول میں  داخل کروانا کچھ احمقانہ سا فیصلہ تو نہیں ہے ،۔
تو ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ
میں خود ڈاکٹر محمد ہونس ایم بی بی ایس اس گورمنٹ پرائمری سکول کا پڑھا ہوا ہوں ،۔
اور اج ایک ڈاکٹر ہون ، میرا چاچا ڈاکٹر ہیں اور اسی سکول کے پڑھے ہوئے ہیں ، میرے والد پٹواری ہیں اور اسی سکول کے پڑھے ہوئے ہیں ،م۔
جناب ممتاز خان صاحب سابق سیکرٹری وزارت خزانہ جن کے ایک روپے کے نوٹوں پر دستخط ہوتے تھے اسی پرائمری سکول کے پڑھے ہوئے تھے ،۔
مشہور شاعر عبدلحمید عدؔم بھی اسی سکول کے پڑھے ہوئے تھے ،۔
ہم سب اس سکول کی ننگی زمین پر ٹاٹوں پر بیٹھ کر تعلیم یافتہ ہیں ،۔
اسی سکول میں ٹاٹوں پر بیٹھ کرتعلیم لئے لوگ اج بڑے بڑے کاروباری ، ڈاکٹر انجنئیر ہیں

مثلا محمد اسحق كميار ـ ڈاكٹر اصغرمسترى ـ باؤ مختار احمد عرف باؤ كميار ـ حاجى محمد صادق كميار ـ غلام مرتضے كميار عرف حاجى ننها كميار ـ بهلّـا كميار ـ حاجى اسماعيل تڑوائى ـ
كيا خيال هے آپ كا ڈاكٹر محمد يونس ايم بىبىايس صاحب كے ان خيالات كے متعلق؟؟؟؟

بكرمى كيلنڈر كى وضاحت

ميرى بكرمى مهينے والى پوسٹ پر جناب اجمل صاحب نے اسلام اباد سے تبصره لكها هے ـ جناب اجمل صاحب سرد گرم چشيده ايكـ ريٹائرڈ انجئنير هيں ـ اور بلاگروں كو كچهـ نه كچهـ لكهنے پر اكساتے رهتے هيں ـ جناب اجمل صاحب لكهتے هيں ـ

بکرمی جنتری بھی اب موسموں کے حساب سے صحیح نہیں رہی ۔ ہاڑھ جو پورا نام ہساڑھ ہے اس مہینہ میں بہت بارشیں ہونا چاہیئں جس سے دریاؤں میں ہاڑھ آ جائے اسی لئے اس مہینہ کو ہاڑھ کا مہینہ بھی کہتے ہیں مگر اب ایسا نہیں ہے۔

مندرجہ ذیل یو آر ایل پر اردو میڈیم کے ایک طالب علم نے کچھ انکشاف کیا ہے ۔ ذرا دیکھئے تو یہ اردو میڈیم طالب علم کیا کہتا ہے ۔
http://hypocrisythyname.blogspot.com/2005/06/urdu-medium-school.html


پنجاب كے جس گاؤں ميں ميں پلا بڑها هوں وهاں بهى فلڈ يعنى سيلاب كو هڑ كهتے تهے يا شائد اب بهى كهتے هيں ـ همارے گاؤں ميں ايك ميله اٹهاره هاڑ كو لگا كرتا تها ـ بچپن ميں بهت انتظار رها كرتا تها اس ميلے كا ـ اس لئے مجهے هاڑ مهينه ياد هے ـ يا پهر اس اٹهاره هاڑ والے ميلے كى وجه سے مجهے بكرمى جنترى كا علم هوا ـ اور يه بهى ياد هے كه هاڑ مهينے ميں هڑ يعنى سيلاب آيا كرتا تها ـ اب اگر اس دور ميں بارشوں كى ٹائمنگ بگڑ گئى هے تو يه بكرمى جنترى اور موسموں كا تغير نهيں هے ـ بلكه بڑهتى هوئى آلودگى كى وجه هے ـ اوزون كى تەـ ميں سوراخ بهى اسى آلودگى كى وجه هے ـ اور اس وجه كى ذيلى وجوهات هيں موسموں كے مزاج ميں تلخى يعنى گرميوں ميں بهت گرمى اور سرديوں ميں بهت سردى ـ
عيسوى جنترى ميں اگر هر چار سال بعد فرورى كے 29 دن يه كريں تو سو سال ميں يه بنتے هيں 30دن يعنى تين سو سال ميں تين مهينے ـ يعنى اگر تين سو سال ميں سے تين مهينے كا نكاس كر ديا جائے تو فرورى مهينه ــ چلچلاتى گرمى اور جولائى كڑكڑاتى سردى ميں بهى آسكتا تها ـ زمين كا سورج كے گرد چكر 365دن كى بجائے 365دن كچهـ گهنٹے كچهـ منٹ اور كچهـ سيكنڈ ميں مكمل هوتا هےـ جس كا علم هونے كے بعد عيسوى كلينڈر ميں ليپ كا سال بنايا گيا تها ـ مگر بكرمى كلينڈر ميں ايسا كوئ سال نهيں هوتا بهر كيا وجه هے كه گرمياں جيٹهـ هاڑ ميں هى اتى هيں حبس ساون بادوں ميں هى هوتا هے اورسردى پوه ماگ ميں هى پڑتى ەے ـ
كهتے هيں كه زمانه قبل از مسيح ميں بهى ەندو برهمنوں كو آسٹرونومى كا علم تها وه جانتے تهے كه زمين گول هے اور سورج كے گرد گومتى هے ـ ان لوگوں كو سرج گرهن اور چاند گرهن كے ٹهيك ٹهيكـ وقت كا بهى علم هوتا تها ـ مگر عام لوگوں كو يه سورج اور چاند كا امتحان اور پته نهيں كيا كچهـ بتا كر اور خود كو بهگوان كا قريبي دوست اور سورج اور چاند كى اس سزا كو ختم كروا سكنے كى سفارش كے لئے كواليفائي هونے كا بتاكر چندا بٹورا كرتے تهے ـ يه ەندو جو كه ەمارے برصغير كے لوگوں كے آباء بهى تهے (باهر سے انے والے حمله آوروں كى اولاد مغل چغتائى ابدال غورى وغيره وغيره هندوں كى اولاد نهيں هيں وه جو چاهے خود كو سمجتے رهيں ) ـ انهوں نے هميں يه كلينڈر بنا كر ديا تها ـ ـ ليكن همارے آباء،ميں ايك بڑا نقص تها اور شائد آج بهى هم ديسى لوگوں ميں هے كه هم بهت بخيل واقع هوئے هيں هم علم كى بات كسى كو بتانے كى بجائے ساتهـ قبر ميں لے جاتے هيں هم ميں بڑے بڑے سيانے حكيم هوئے هيں جو مردے ميں جان ڈال ديتے تهے مگر انهوں نے يه نسخے كسى كو بتائے نهيں مگر ساتهـ لے كر مر كئے ـ ايك انگريز هيں كه جس كے پاس جو علم تها يا هے كو كتاب ميں لكهـ ديا كه سب لوگ پڑه ليں اور اگر كوئى اس علم كو لے كر اگے جا سكتا هے تو ترقى كرے ـ اورانگريز كى اس روايت نے آج دنيا كو ترقى كے اس مقام پر بەنچا ديا هے كه معلوم انسانى تاريخ ميں اس كى مثال نهيں ملتى ـ

بدھ، 15 جون، 2005

بكرمى كيلنڈر

اج هاڑ مهينےكي ايكـ تاريخ هے اور سال هے ـ 2062بكرمى ـ عيسى عليه سلام كے پيدا هونے سے بهى 57سال پهلے بنايا گيا بكرمى كيلنڈر موسموں كے كسى بهى تغير كے بغير آج بهى چل رها هے ـ ياد رهے عيسوى كيلنڈر عيسى عليه سلام كے اسمان پر اٹهائے جانے كے پانچ سو سال بعد بنايا گيا اور كچهـ عرصه بعد ليپ كا سال شامل كر كے اسے موڈيفائى كيا گيا تها ـ مگر بكرمى سال جس ميں كچهـ مهينے بتيس دن كے بهى هوتے هيں اج تكـ بغير كسى موڈيفكيشن كے موسموں كے مطابق چل رها هے ـ
راجه بكرم اجيت جنكے نام سے يه كلنڈرشروع هوا یہ وہی بکرماجیت ہے جو ہند دھرم کا بڑا حامی اور علوم و فنون کا قدر دان مشہور ہے۔ اس کو بکرم اور بکرم اعظم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تمام ہندو راجائوں سے زیادہ مشہور ومعروف ہے۔ جیسا بہادر تھا ویسا ہی عالم بھی تھا۔ اس کے دربار میں 9 صاحب کمال تھے جو اپنے زمانے کے نورتن کہلاتے تھے۔ ان میں اول نمبر پر کالی داس شاعر تھا جس کی نہایت مشہور نظمیں یہ ہیں۔ سکنتلا' رگھوونش' میگھ دوت' کمار سنبھو- ایک رتن امر سنگھ تھا جس کی سنسکرت کی منظوم لغات ہند کے ہر مدرسے میں مشہور و معروف ہے۔ چوتھا اھنونتری بید تھا۔ پانچواں در رچی تھا جس نے پراکرت یعنی اپنے وقت کی عام مروجہ سنسکرت کی' جو قدیم کتابی سنسکرت سے بہت مختلف ہے' صرف و نحو لکھی ہے۔ چھٹا رتن مشہور منجم دارا مہر تھا۔ پنج تنتر کی حکایتیں بکرم ہی کے عہد میں تصنیف ہوئی تھیں۔ بعد میں ان کا ترجمہ عربی فارسی میں ہوا اور پھر بہت سی مغزی زبانوں میں۔ بکرم اور اس کے عہد کی اور بھی بہت سی حکایتیں ہیں جو آج تک ہند کے گائوں گائوں میں بیان کی جاتی ہیں۔
بکرم کے عہد میں بدھ مت آہستہ آہستہ صفحہ ہند سے مٹتا جاتا تھا۔ کالی داس کی تصنیفوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شوالوں اور ٹھاکر دواروں کو بہت مانا جاتا تھا۔ اور ان میں ہندوئوں کے دیوتائوں کی پوجا ہوتی تھی۔ راجہ شوجی کو پوجتا تھا مگر بدھ مت والوں کے ساتھ بھی مہربانی سے پیش آتا تھا۔ اس کے دربار کے نورتنوں میں سے ایک بدھ تھا۔

ہور چوپو!!ـ

اس لطيفے كو پنجابى ميں هى پڑهنے ميں مزا ہے ـ اس لئے پنجابى ميں ہى نقل كر رہا هوں ـ يه صرف ايک لطيفه هى نهيں ـ پاكـ فوج كے پاكستان كے ساتهـ سلوكـ کی بپتا بھی ہے ،،،،


اک سردار جی دے پریوار وچ چار پنج بھرا سن۔
 اک دن بہہ کے صلاح مشورا کرن لگے۔
پئی ایتکی کیہڑی کیہڑی پیلی وچ کیہ کیہ ویجنا چاہی دا اے۔
 وڈے صلاح دتی پئی مڈھلا کلا جھونے ۰مونجی) لئی۔
 اگلا کپاہ(کپاس) لئی تے اُہنوں اگلے چاچے کیاں دے نال والے کلے چ کماد دے بروٹے سٹنے چاہی دے نیں۔
اک نے اگارا بھردے ہوئے آکھیا۔
پئی چاچے کیاں نے تاں کماد نوں اجاڑ پاء دینی ایں۔ اک ہور بولیا اِہدا علاج تاں اج ای بلکہ ہنے ای کر لیندے آں۔
چلو اٹھو آئو میرے نال۔ سارے بھرا ڈانگاں پھڑی چاچے کیاں ول ٹر گئے۔
اگے اُہ اپنے اپنے کمیں کاریں رجھے ہوئے سن۔
اِہناں جاندیاں ای آدیکھیا نہ تائ۔ ڈانگاں اگریاں تے داڑ داڑ ورھویناں شروع کر دتیاں۔
کسے نوں کھرلی وچ سٹیا۔
کوئی ویڑھے وچ ڈگا پیا۔
تے کوئی اگے لگ کے بھج وگیا۔
پر بہتیاں دے کھنے کھل گئے۔
چاچے نے بڑا پچکار کے ترلیاں نال پچھیا!!'
پئی تہانوں کیہ وگیاں؟؟
اگوں جواب ملیا۔
ہور چوپو۔
تہانوں چپا لیندے آں گنّے!!۔
لوکاں وچاریاں نال تاں ہور چوپو والا ای ہتھ ہو رہیا اے۔
کہ
کماد اجے بیجیا وی نئیں تے چاچے نال ڈانگو ڈانگی۔
 

Popular Posts