ہفتہ، 16 جولائی، 2005

موريا خاندان

چندر گپت موریا )321 سے 204 قبل مسیح تک کے زمانے میں مگدھ ، شمالی ہند کی ایک نہایت عظیم الشان سلطنت ەوا كرتى تهى۔ کہتے ہیں کہ گنگا کی وادی سے لے کر پنجاب یعنی آریا ورت تک تمام دیس اس کا تابع تھا اور قدیم آریا کی وہ سب ریاستیں جو بدیہہ، پانچال، کوشل اور کاشی کے ناموں سے مشہور تھیں مگدھ کی قلمرو میں شامل تھیں۔ چندر گپت کا خاندان موریا خاندان کہلاتا ہے کیونکہ اس کی ماں کا نام مرا تھا۔ تیس سال کے قریب اس نے پاٹلی پتر میں راج کیا۔ باختر یعنی ترکستان کے بادشاہ سلوکس نے اس کے ساتھ صلح کر کے اس کو اپنی بیٹی بیاہ دی تھی۔ ایک یونانی سفیر مسمی بہ مگاستھینز آٹھ سال تک اس کے دربار میں رہا۔ اس نے مگدھ دیس اور ہندوئوں کے رسم و رواج کا حال جو خود دیکھا یا سنا تھا بہت مفصل لکھا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ، پاٹلی پتر ایک بہت بڑا شہر تھا۔ 9 میل لمبا اور دو میل چوڑا۔ مگدھ کے راجہ کی فوج میں 6 لاکھ پیادے تھے اور چالیس ہزار سوار۔ راجہ بڑی خوبی اور دانائی سے حکومت کرتا تھا۔
چندر گپت کا پوتا اشوكـ(272 سے 232 ق م) تک جو اس خاندان کا تیسرا راجہ ہوا ہے 272ق ۔ م میں گدی پر بیٹھا۔ اس نے چندر گپت سے بھی زیادہ شہرت پائی۔ اس کو اکثر اشوک اعظم کہا جاتاہے کیونکہ اپنے عہد کا سب سے بڑا اور طاقتور راجہ تھا۔ جوانی میں اشوک لڑائی کا بڑا مرد تھا۔ کہا کرتا تھا کہ کلنگ )اڑیسہ( کو فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لوں گا۔ چنانچہ تین سال لڑا اور کلنگ کو فتح کر لیا۔ کہتے ہیں کہ اس جنگ میں ہزاروں لاکھوں کا خون ہوتا ہوا دیکھ کر اشوک کے دل میں ایسا رحم آیا کہ یک بیک طبیعت بالکل بدل گئی کہنے لگا کہ اب میں بدھ کی تعلیم پر چلوں گا اور کبھی کسی سے لڑائی نہ کروں گا۔ بدھ مت کو اپنے تمام راج کا مذہب قرار دیا اور اپنا نام پر یاد رشی یا حبیب خدا رکھا۔ اس کا ایک بیٹا بھکشو اور بیٹی بھکشنی ہوگئی۔ اس نے دونوں کو سیلون )سنگلدیب( بھیجا کہ وہاں بدھ مت کی تبلیغ کریں۔ اب دوسری مجلس کو منعقد ہوئے سوا سو سال سے زیادہ ہوگئے تھے اور بدھ مت میں کئی قسم کی تبدیلیاں نمایاں ہونے لگی تھیں۔ ان کی تحقیق کے لیے 242ق ۔ م میں اشوک نے اس مذہب کے ایک ہزار بزرگوں اور عالموں کی تیسری بڑی مجلس منعقد کی۔ مراد یہ تھی کہ بدھ مت کی تعلیم بعد کی بدعتوں اور آمیزشوں سے پاک ہو کر اپنے بانی کی اصلی تعلیم کے مطابق ہو جائے۔ پاٹلی پتر میں یہ مجلس منعقد ہوئی۔ بدھ مت کی تمام حکایتیں اور روایتیں پالی زبانی میں لکھ لی گئیں۔ کچھ اوپر دو ہزار برس سے بدھ مت کے جو شاستر جنوبی ایشیا میں جاری ہیں۔ وہ اسی مجلس کے مرتب کیے ہوئے ہیں، بدھ دھرم کی تبلیغ کے لیے اشوک نے کشمیر، قندھار، تبت، برہما، دکن اور سیلون )سنگلدیپ( میں بھکشو روانہ کئے۔
اشوک نے 14 احکام جاری کئے اور جابجا سارے ہند میں پتھر کی لاٹھوں پر کندہ کرا دئیے۔ ان میں سے کئی آج تک موجود ہیں۔ ایک الہ آباد میں ہے، ایک گجرات کے گرنار پربت پر ہے۔ ان احکام میں بدھ کی تعلیم کی بڑی بڑی باتیں سب آ جاتی ہیں۔ مثلاً رحم کرو، نیک بنو، اپنے دل کو پاک کرو، خیرات دو۔ ایک کتبے کی عبارت میں لکھا ہوا ہے کہ اشوک نے کلنگ دیس فتح کیا اور پانچ یونانی بادشاہوں سے صلح کی۔ ان میں سے تین مصر یونان خاص اور شام کے بادشاہ تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے عہد میں اشوک کیسا مشہور اور ذی شان راجہ تھا۔
؁ 232قبل مسیح میں اشوک نے وفات پائی۔ اس کے چالیس سال کے بعد موریا خاندان کا بھی خاتمہ ہوا۔ موریا کے بعد دو خاندان مگدھ میں ایسے ہوئے جن کے ناموں کے سوا اور کچھ حالات معلوم نہیں ہوئے ہیں۔ اشوک سے دو سو برس بعد مگدھ کا راج اندھر خاندان کے ہاتھ آیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts